پاکستانی عوام یونہی روتے رہیں گے ۔۔؟؟

گزشتہ چھ ماہ ترکیہ کے کئی شہروں کی سیر اور انتظام کو سمجھ کر جب پچھلے دنوں میری پاکستان واپسی ہوئی تو ایئرپورٹ سے گھر آتے ہوئے جابجا گندگی کے ڈھیر، بے ہنگم ٹریفک اذیت ناک حد تک محسوس ہوئی۔

گھر میں آمد کےبعد بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ بھی گھمبیر مسئلہ لگی،
ایسا نہیں ھے کہ پاکستان کے حالات پہلے بہتر تھے اور اب میرے ترکیہ سے آنے کے بعد خراب ہوگئے ہیں۔
بس! جب ترکیہ اور پاکستان کا موازنہ کریں تو اپنی سوہنی دھرتی کے حالات پر پریشانی ھوتی ھے۔اور شدید خواہش ھوتی ھے کہ ہمارا وطن بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ھوجائے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو
ہمارے بیچارے عوام ہر چیز پر ٹیکس دینے،تمام اشیاء ضرورت مہنگی خریدنےاوربجلی و گیس کے بھاری بل دینےکے باوجود بھی گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سہنے،مہنگی تعلیم اور صحت خریدنے پر مجبور ہیں۔
کچرے کی صورت حال کو دیکھ لیں جابجا کوڑے کے ڈھیر نظر آئیں گے۔جنھیں اٹھانے اور تلف کرنے پر انتظامیہ کو کوئی فکر نہیں ھے۔
جب کہ آج دنیا اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں کچرے کو تلف کرنےکا طریقہ کار بھی سائنسی اصولوں کے تحت طے کیاجاچکا ہے۔
کوڑا کرکٹ اٹھانے ،اسے تلف کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا باقاعدہ انتظام ھونا چاہئے۔
کیونکہ تھوڑی سی غفلت موسمی تبدیلی پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔

شہروں اور دیہاتوں میں صفائی اور کچرے کو تلف کرنے کےحوالے سے سائنسی بنیادوں پر واضح حکمت عملی مرتب کرنےاور شہریوں کو تربیت دینے کی سخت ضرورت ہے، صرف درخت لگانے سے بات نہیں بنے گی۔۔
شہری حکومتوں کی جانب سے بھی کچرے کی صفائی کے لئے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی، کراچی، پشاوراور راولپنڈی سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے تباہی شہریوں کا مقدر بن رہی ہے،سیوریج سسٹم کی ناکامی کی وجہ سے معمولی بارش کے بعد ایک اذیت ناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سیوریج سسٹم کسی بھی شہر کے لیے بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔اس سہولت کے موجود نہ ہونے سے روزمرہ استعمال ہونے والا پانی اور بارش کا اضافی پانی شہری علاقوں میں تباہی اور بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔جیساکہ گزشتہ بارشوں میں سیلابی صورتحال دیکھنے کو ملی، ایسا لگتا ھے کہ ہمارا سیوریج کانظام موہنجوڈارو سے بھی پیچھے چلا گیا ہے۔۔

اگر ہم واقعی ترقی یافتہ مہذب قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں نہ صرف صفائی بلکہ اپنی سوچ اور رویوں پر بھی کام کرناہوگا۔اگر گھر کی صفائی اہمیت رکھتی ہے تو یہ گلیاں،محلے کی سڑکیں سب سے بڑھ کر یہ ملک اسے بھی صاف رکھنا اہم ہے۔اس ضمن میں علاقہ مکینوں کے بعد اہم کردار بلدیاتی اداروں اور کنٹونمنٹ کا ہے۔۔بلدیاتی سسٹم تو ھے نہیں اور کنٹونمنٹ کا اسٹاف باقاعدگی سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کے نظام کی نگرانی نہیں کرتا۔
اس وقت پوری دنیا میں بلدیاتی نظام مضبوط ہونے کی وجہ سے اس قسم کے مسائل دیکھنے کو نہیں ملتے۔مگر پاکستان میں بلدیاتی نظام ہی ناپید ھے۔
صرف ایک جماعت کے جیت جانے کے خوف سے کراچی اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کو ہی ملتوی کروادیا جاتا ھے ۔۔۔
اس کے علاوہ گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ بھی وبال جان بن چکی ہے۔
حالانکہ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ کہ صوبے خود بجلی بنائیں گے،سول انتظامیہ چاہےتو کچرے کے ذریعے کافی حد تک بجلی کی پیداوار حاصل کرسکتی ہے لیکن کرے کون ؟؟۔
اسی طرح
پاکستان میں گیس بحران کی وجہ حکومت کا بروقت اقدام نہ کرنا ہے جبکہ ترکی کی حکومت روس سے گیس لے کر عوام کو مکمل سہولت پہنچا رہی ہے۔
حالانکہ ہمارے ملک میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں ، لیکن امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے اور سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے یہ دریافت تا حال نہیں ہو سکی۔
حکومت کو چاہیے کہ بجلی کے پاور پلانٹس کو گیس کی بجائے کوئلے پر چلائے۔ کیونکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت بہت نیچے آ چکی ہے۔مہنگی اور درآمدی گیس کے بجائے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے سے بجلی کی پیداواری لاگت بھی کم ہوگی اور بچ جانے والی گیس دوسرے شعبوں میں کام آ سکے گی، جس سے گیس کے بحران میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
گیس کی کمی کی وجہ سے ایک سروے کے مطابق تقریبا ہر گھر میں گیس کمپریسر موجود ھے اورہر شخص اس قابل نہیں کہ وہ سلنڈر استعمال کرسکے۔حالانکہ زیادہ گیس کھینچنے کیلئےگھر میں غیر قانونی طور پر گیس کمپریسر لگانا قانون اور شرعا جائز نہیں۔
اس لیے کہ اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے اور آس پاس کے لوگوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔
جو چیز عام لوگوں کی تکلیف کا ذریعہ بنے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں۔
اس کی روک تھام اور چیکنگ کی بھی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔جب کہ آئے دن اس کے باعث حادثات رونما ھوتے رہتے ہیں۔
ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے کیا اب بھی عوام کی آنکھیں نہیں کھلتی کہ حکومت کی باگ ڈور ان لوگوں کے حوالے کریں جنھیں عوام کے مسائل کا احساس ہے اور جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔جو عوام کے معاملات میں خدا خوفی رکھتے ہیں ؟؟؟
عوام نے خوشحالی کے نام پر ہر سیاسی پارٹی کو آزما لیا ھے، سوائے ایک جماعت اسلامی کے ۔جبکہ اس جماعت کے دو مئیر کراچی میں گڈ گورننس کی اعلیٰ مثال قائم کرچکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ھورہا ھے جو کہتے ہیں۔۔۔#حل صرف جماعت اسلامی ۔۔۔۔۔۔
عوام اپنے مسائل کا حل ایک بار اس جماعت پر اعتماد کرکے بھی ڈھونڈ لے۔
سب جانتے ہیں کہ ترکیہ کی ترقی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ دیانت دار قیادت اور بلدیاتی نظام کے ذریعے شہری حکومتوں کے پاس اختیارات کا ھونا ھے۔
یہ تو طے ھے کہ سسٹم میں جب تک کرپٹ لوگ رہیں گے عوام یونہی روتے ہی رہیں گے ۔