اعظم سواتی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے، مختلف شہروں میں بھی مقدمات درج

متنازع ٹویٹس اور اعلیٰ ادارے کے افسر پر الزامات لگانے کے مقدمے میں گرفتار پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کا دور روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) کے سائبرکرائم سرکل نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے رہنما محمد اعظم خان سواتی ( Azam Swati ) کو آج بروز اتوار 27 نومبر کو اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا۔**

عدالت میں پیشی

پی ٹی آئی رہنما کو ڈیوٹی مجسٹریٹ وقاص احمد کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالتی میں پیشی کے موقع پر پی ٹی آئی رہنما شہزاد وسیم، عمران اسماعیل، شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود بھی ایف ایٹ کے ڈسٹرکٹ کورٹ پہنچے ہیں۔

عدالت کے باہر پی ٹی آئی کارکنان کی بھی بڑی تعداد موجود رہی، جب کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔

سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر کہاں ہیں بتائیں کیوں گرفتار کیا ہےَ؟، جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ کچھ متنازع ٹوئٹس ہیں جس کے باعث گرفتار کیا گیا، ٹوئٹ اکاؤنٹ اعظم سواتی کا ہی ہے، ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہےان چیزوں پرپہلےبھی ان پرایف آئی آردرج ہیں۔

عدالت کے روبرو ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے ٹوئٹ سے انکار نہیں کیا، دوسری بار اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔

اس دوران اعظم سواتی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جو ٹویٹس کیے گئے وہ ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات پر پورا نہیں اترتے۔ پولیس کی جانب سے لیے گئے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اعظم سواتی کا 164 کا بیان نہیں لیا گیا۔

وکیل بابر اعوان نے یہ بھی کہا کہ سینیٹر اعظم سواتی پر پچھلی بار بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا۔ اعظم سواتی اس تشدد سے ریکور نہیں کر سکے ہیں۔

عدالت نے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اعؓم سواتی کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔

تفصیلی فیصلہ

عدالت کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے میں تفتیشی افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تفتیشی افسر نے بتایا اعظم سواتی سے موبائل فون اور لیپ ٹاپ برآمد کرنا ہے۔ ملزم کے جرم یا بے گناہی سے پردہ اٹھانے کیلئے تفتیش ضروری ہے۔ فیصلے میں تفتیشی افسر سے اعظم سواتی کا طبی معائنہ بھی کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق تفتیشی افسر تشدد کے خدشے کی قانون کے مطابق تحقیقات کرے۔

گرفتاری

ایف آئی اے کے مطابق اعظم سواتی کو اسلام آباد میں ان کے چک شہزاد فارم ہاؤس پر چھاپا مار کر اتوار 27 نومبر کی اعلی الصبح گرفتار کیا گیا۔ اس موقع پر تین رکنی ٹیم نے اعظم سواتی سے پوچھ گچھ بھی کی۔ بعد ازاں ٹیم انہیں اپنے ساتھ لیکر فارم ہاؤس سے روانہ ہوگئی۔

گرفتاری کے وقت اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ قانون کی بالادستی کے حق میں نکلے ہیں، میں نے کوئی جرم کیا ہے تو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ رول آف لاء کا ہے، آج مجسٹریٹ آئے، وارنٹ دے۔

مقدمہ درج

پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا ہے۔ اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ سائبر کرائم ونگ میں درج کیا گیا۔ مقدمہ ایف آئی اے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمان کی مدعیت میں درج کیا گیا، جب کہ درج مقدمے میں تضحیک اور پیکا ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

درج مقدمے میں اعظم سواتی کی ٹوئٹس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے اپنے ویریفائڈ اکاؤنٹ سے متنازع ٹوئٹس کیں۔

مقدمے میں یہ بھی کہا گیا کہ اعظم سواتی نے اپنے بیان سے فوج کے اندر افسران کو ادارے اور سربراہ کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ اعظم سواتی کی جانب سے یہ عمل دوسری بار کیا گیا ہے۔

دوسری جانب کراچی اور کوئٹہ میں بھی اعظم سواتی کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔

اسد عمر

تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے اعظم سواتی کی مبینہ گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی نے جس باوقار انداز میں خود کو آج گرفتاری کے لیے پیش کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک اصول کے لیے لڑ رہے ہیں۔

اسد عمر نے لکھا کہ آپ اعظم سواتی کے الفاظ کے انتخاب یا ان کے خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن آپ ان سے اس بات پر اختلاف نہیں کر سکتے کہ جو کچھ بھی ہو قانون کے دائرے میں رہ کر کرنا چاہیے۔

شیریں مزاری

سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا ہمارے آزادی مارچ سے خطاب کرنے کے بعد ایف آئی اے نے سینیٹر اعظم سواتی کو دوبارہ گرفتار کیا کیونکہ تقریر میں انہوں نے کچھ سوالات کیے اور بتایا کہ ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ کیا ہو۔

گرفتاری کا پس منظر

پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر اعظم سواتی کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سیل نے گرفتار کیا۔

ایف آئی اے کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے مطابق پی ٹی آئی کے سینیٹر کو آرمی چیف سمیت ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور دھمکی آمیز ٹوئٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

16 اکتوبر کو بھی انہیں اسلام آباد ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ کے ڈیوٹی مجسٹریٹ شعیب اختر کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں ان کا دوسری بار ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا تھا، جب کہ اس سے قبل بھی عدالت نے ان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔