سیلاب متاثرہ بچی سے زیادتی؛ گاڑی کے رنگ نے ملزمان کو پکڑوادیا

کراچی پولیس نے صرف 2 روز میں گاڑی کے رنگ سے سیلاب زدہ بچی سے زیادتی کے ملزموں کو پکڑلیا۔

24 اکتوبر کی صبح ساڑھے 6 بجے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ایمرجنسی وارڈ میں 10 سالہ بچی کو بے ہوشی کی حالت میں لایا گیا تھا اور اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔

سیلاب متاثرہ بچی سے اجتماعی زیادتی

بچی کو اس کی والدہ اسپتال لیکر آئی تھی، جس نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ ان کا تعلق شکارپور سے ہے اور وہ سیلابی صورتحال سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کے ہمراہ کراچی آ گئی تھی اور عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے باہر سڑک کے ساتھ واقع فٹ پاتھ پر پڑاو ڈال لیا تھا۔

متاثرہ بچی کی والدہ کے مطابق 23 اکتوبر بروز اتوار 12 بجے کے قریب اس کی بچی پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئی اور کچھ گھنٹوں بعد رات ڈھائی بجے مزار کے قریب زخمی حالت میں ملی۔

جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹرز نے میڈیکو لیگل سیکشن کو اس کیس کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بچی کا علاج شروع کر دیا۔ متاثرہ بچی کا آپریشن کیا گیا اور اسپتال میں تعینات خاتون میڈیکولیگل افسر نے دوران آپریشن بچی کا معائنہ کیا اور بتایا کہ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

میڈیکو لیگل سیکشن نے واقعے کی اطلاع پولیس کو دی جس کے بعد بوٹ بیسن پولیس اسپتال پہنچی اور متاثرہ بچی کی والدہ کا بیان ریکارڈ کر کے جنسی زیادتی کی دفعہ کے تحت نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا۔

ملزمان کیسے گرفتار ہوئے؟

متاثرہ بچی نے پولیس کو بیان دیا کہ وہ مزار کے پاس بھیک مانگ رہی تھی کہ ایک کار میں سوار کچھ افراد اس کے قریب آئے اور اسے کہا کہ ہم تمہیں چیزیں دلائیں گے جس پر بچی ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی جس کے بعد اسے نامعلوم مقام پر لے جا کر اجتماعی طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بچی کے اغواء اور زیادتی میں ملوث ملزمان گرفتار

بچی کے بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس نے مزار کے اطراف میں واقع سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کی۔ چونکہ متاثرہ بچی کی عمر بہت کم تھی اور گاڑیوں سے متعلق اس کی معلومات کم تھی تو وہ پولیس کو صحیح طریقے سے بتا نہیں پا رہی تھی کہ ملزمان کس گاڑی پر سوار تھے تاہم بچی نے واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی کا رنگ ضرور بتایا۔

سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے کچھ مشکوک گاڑیوں کو ہائی لائٹ کیا گیا اور اس کی تفصیلات سندھ پولیس کے اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل سے شیئر کی گئیں۔ اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل نے ان مشکوک گاڑیوں کے مالکان کا کالنگ ڈیٹا ریکارڈ کی مدد سے وقوعے کے وقت ان کی موجودگی کا پتا چلایا۔

دوران تحقیقات ایک مشکوک گاڑی کے مالک نے بتایا کہ وہ گاڑی بیچ چکا ہے اور وہ اس کے زیر استعمال نہیں۔ جب اس سے ہوچھا گیا کہ اس نے گاڑی کس کو فروخت کی تو اس نے اس شخص کا نام اور نمبر پولیس کو دیا جس کو اس نے گاڑی فروخت کی تھی۔

ایس پی کلفٹن ڈویژن احمد فیصل چوہدری نے سما ڈیجیٹل کو بتایا کہ جب ایک مشکوک گاڑی کے مالک نے بتایا کہ وہ گاڑی فروخت کر چکا ہے لیکن گاڑی کی ملکیت ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی تو پولیس نے جس شخص کو گاڑی فروخت کی گئی تھی اس شخص کا کالنگ ڈیٹا ریکارڈ حاصل کیا تو ان کی لوکیشن وقوعے کے وقت عبداللہ شاہ غازی کے قریب بتائی گئی۔

ایس پی کلفٹن ڈویژن کے مطابق پولیس نے فوری طور پر مبینہ ملزم کی کرنٹ لوکیشن کو ٹریس کرتے ہوئے ڈیفنس میں چھاپہ مارا اور اسے گرفتار کر لیا۔

دوران تفتیش ملزم نے بچی سے زیادتی کا اعتراف کیا اور بتایا کہ اس جرم میں اس کا دوست بھی شریک تھا جو اس واقعے کے بعد اپنے گاؤں ٹنڈوالہیار چلا گیا تھا۔

احمد فیصل چوہدری نے بتایا کہ ٹنڈو الہیار پولیس کو شریک ملزم کے بارے میں اطلاع دی گئی جس پر ٹنڈوالہیار پولیس نے اسے گرفتار کر کے کراچی منتقل کر دیا ہے۔

ملزمان کون ہیں؟

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملزمان کون ہیں اور انہوں نے بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ کیوں بنایا؟

ایس پی کلفٹن کے مطابق اس کیس کا مرکزی ملزم جسے ڈیفنس سے گرفتار کیا گیا ہے وہ آن لائن ٹیکسی سروس کے لیے گاڑی چلاتا ہے۔ ملزم نے دوران تفتیش کو بتایا کہ اس کا دوست اتوار کے روز اس سے ملنے ٹنڈوالہیار سے کراچی آیا تھا۔ رات کے وقت وہ گاڑی میں سوار ہو کر گھومنے نکلے تو مزار کے قریب ایک بچی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ مرکزی ملزم کے مطابق اس کے دوست نے اصرار کیا کہ گاڑی بچی کے پاس لیکر چلو، بچی سے بات چیت کے بعد ملزمان اسے گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔

بچی ملزمان کے ساتھ جانے پر کیسے راضی ہوئی؟

احمد فیصل چوہدری نے بتایا کہ ملزمان نے جب بچی سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے، تو اس نے بتایا کہ اس کا تعلق شکارپور سے ہے اور ان کا گھر سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ملزمان نے بچی کو بولا کہ اگر راشن چاہیے تو گاڑی میں بیٹھ جاؤ ہم تمہیں راشن دلا کر واپس چھوڑ جائیں گے۔

ایس پی کلفٹن کے مطابق بچی نے دونوں ملزمان کو شناخت کر لیا ہے۔ اس واقعے میں ملوث ملزمان کی تعداد سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے احمد فیصل چوہدری نے بتایا کہ اس واردات میں دو ملزمان ملوث تھے جنہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پولیس نے ملزمان کے ڈی این اے سیمپل حاصل کر کے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری روانہ کر دیئے ہیں۔