مسلمانوں میں سائنسدان کیوں پیدا نہیں ہوتے؟

::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

تحریر: پروفیسر سید ملُازم حسین بخاری                                                                                 پرنسپل آزاد جموں وکشمیر میڈیکل کالج مظفرآباد

          

ایسا بالکل نہیں کہ مسلمانوں میں سائنسدان پیدا نہیں ہوتے؛ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ سائنس کی ابتدا ہی مسلمانوں نے کی تو غلط نہیں ہوگا۔ الکِندی، الخوارزمی، ابنِ سینا،       ابن الہیثم ،ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر عبدالسلام اور بہت سے دوسرے نام ہمارے تاریخ کے نگینے ہیں۔ جنکی وجہ سے آج کی مسلم دنیا اپنی شاندار سائنسی اور علمی وراثت پر بجا فخر کر سکتی ہے اور آج دنیا کو سمجھنے میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

مسلمانوں میں سائنس کی زبوں حالی کی وجوہات:

ماضی میں اسلامی عروج کے وقت سائنس کے کردار کو ٹھیک سے سمجھا اور سراہا نہیں جاتا رہا۔ جن مسلم سائنسدانوں نے ماضی میں ریسرچ کے شعبہ میں کام کیا ان کی نا صرف ناقدری کی گئی بلکہ ان کے ساتھ مسلم حکمرانوں نے اس قدر برا سلوک کیا کہ ریسرچ کے اس شعبہ کو لوگوں نے ترک اس لیے کر دیا کیونکہ مسلمان حکمرانوں نے سائنس سے تعلق رکھنے والے ماضی کے عظیم سائنسدانوں کی جو تذلیل کی وہ دوسروں کے لیے عبرت بن گئی۔ مسلمانوں نے اپنے محسنوں کی قدر نہیں کی جس کی وجہ سے یہ سائنس اور ریسرچ کا شعبہ ہمارے ہاں آگے نہیں بڑھ سکا۔ 

اس کی علاوہ  میری اپنی ایک مثال کیجئے۔  موصوف نے 2011 میں ریسرچ کے لیے ایڈوانس ڈائگناسٹک لیب بنائی اور اس میں پی ایچ ڈی پراجیکٹس کے لیے سٹیم سیل کے علاوہ بہت سارے پراجیکٹ پر کام شروع کیا جس کے نتیجہ کے طور پر یکم مئی 2013 کو مجبوراً رخصت ایکس پاکستان پر جانا پڑا۔

اس کے علاوہ پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان عبد القدیر خان کے ساتھ جو سلوک ہوا اس پر اُنہیں 13.4.2012 کو  یہ کہنا پڑا:

گزر تو خیر گئی ہے تیری قدیر            

ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ماضی کے جن عظیم سائنسدانوں کے ساتھ بُرا سلوک کیا ان میں سے کچھ کے حالات درج ذیل ہیں

1.       یعقوب الکندی

جسکا اصل نام ابو یوسف یعقوب ابن اسحا‍ق الکندی (185ھ/801ء تا 259ھ/873ء) تھا۔ یہ فلسفیات؛ طبیعیات، ریاضی، طب، موسیقی ،

 کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ یہ بصرہ میں پیدا ہوا اور اس نے بغداد میں وفات پائی۔

مسلمان حکمرانوں کا سلوک 

اس کے کتب خانہ کو ضبط کر کے جلا دیا گیا اور اسے کوڑے مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ جب اقتدار الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو ملا تو انہوں نے علمائے سو کی خوشنودی کے لیے الکندی کا کتب خابہ ضبط کر لیا۔ انہیں 60 برس کی عمر میں کوڑے مارے گئے، وہ ہر کوڑے پر چیختے اور تماشائی خوش ہوتے۔

2.       ابن رشد

اسکا اصل نام أبو الوليد محمد بن أحمد بن محمد بن رشد تھا۔محمد ابن رشد (پیدائش: 14 اپریل 1126ء– وفات: 10 دسمبر 1198ء) ۔

مسلم فلسفی، طبیب، ماہر فلکیات اور مقنن تھے۔ بارہویں صدی میں ابن رشد مشہور ترین شخصیت ہیں۔

اندلس کے مشہور سائنسدان تھے جنہوں نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے کتب خانہ کو جلا دیا گیا اور اسے

مسجد کے ستون سے بندھوا کر اس پر نمازیوں سے تھکوایا گیا: اور آخری ایام ذلت اور رسوائی میں گزاری۔

مسلمان حکمرانوں کا سلوک 

مگر سیاست اور نئے خلیفہ ابو یوسف یعقوب المنصور (1184-1198) کی فلسفیوں سے نفرت اور حاسدین کی سازشوں نے خلیفہ کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے قاضی القضاہ اور طبیبِ خاص پر کفر کا الزام لگا کر اسے الیسانہ (قرطبہ کے پاس ایک چھوٹا سا شہر جس میں زیادہ تر یہودی رہتے ہیں) ملک بدر کر دے، خلیفہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی تمام فلسفیانہ تصانیف کو آگ لگادی اور طب، فلک اور حساب کے علاوہ فلسفہ سمیت تمام جملہ علوم پر پابندی عائد کردی۔ایک روایت کے مطابق انہیں جامع مسجد کے ستون سے باندھا اور نمازیوں نے ان کے منہ پر تھوکا۔

 

 

3.       ذکریا الرازی 

(پیدائش854ء– وفات: 925ء) (انگریزی Rasis /Rhazes )فارس سائنسدان، ماہرِ طبیعیات، ہیئت دان اور فلسفی تھے۔ 

دنیا کی تاریخ میں جہاں بہت سے طبیبوں کا نام آتاہے وہاں “ابوبکر محمد بن زکریا رازی” کا نام علم طب کے امام کی حیثیت سے لیا جاتاہے۔ ذکریا

ایک عظیم فلسفی تھا ،کیمیا دان تھا ،ماہر فلکیات اور ماہر طب بھی تھا۔ 

مسلمان حکمرانوں کا سلوک 

حاکم وقت نے حکم دیا کہ اس کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو اسکا سر نہیں پھٹ جاتا یا کتاب۔ اس ظلم کی وجہ سے وہ اندھا ہو گیا اور پھر اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔

4.       ابن سینا    ماہر القانون طب

بو علی سینا کا مکمل نام علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا (980ء تا 1037ء) ہے، جو دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب اور فلسفی ہیں۔

 ابن سینا یا ابی سینا  فارس کے رہنے والے ایک جامع العلوم شخص  تھے۔ انہوں نے 450  کتابیں  لکھیں جن میں سے قریبا   240 ہی بچی  ہیں،

 ان میں سے فلسفہ پر 150 اور ادویات پر 40 تصنیفات تھیں۔ ان کی سب سے مشہور کتابوں میں “کتاب شفایابی”  جو  ایک فلسفیانہ اور سائنسی

 انسائیکلوپیڈیا اور “طبی قوانین “جو ایک طبی انسائیکلوپیڈیا تھا، شامل تھے۔ ان میں بہت چیزیں 1650 تک قرون وسطی کی یونیورسٹیوں میں

 ایک معیاری طبی کتب کے طور پر پڑھائی جاتی رہیں ۔

مسلمان حکمرانوں کاسلوک 

بو علی سینا جو قانون طب کا بانی تھا اوراس کی تصانیف مغرب کی یونیورسٹیوں میں چھ سو سال تک پڑھائی جاتی رہی۔ وہ بھی اس وقت کے حکمرانوں سے چھپتا پھرتا رہا اور اپنا وطن ترک کر بیٹھا۔

جابر بن حیان : علم کیمیا 

یہ خراسان سے تھا جو جدید کیمیا کا باپ کہلاتا تھا جس نے کیمیا، طب اور فلکیات پر کام کیا۔

 جابر بن حیان (پیدائش: 721ء— وفات: 25 دسمبر 815ء) مسلم کثیر الجامع شخصیت، جغرافیہ نگار، ماہر طبیعیات، ماہر فلکیات اور منجم تھے۔

تاریخ کا سب سے پہلا کیمیادان اور عظیم مسلمان سائنس دان جابر بن حیان جس نے سائنسی نظریات کو دینی عقائد کی طرح اپنایا۔

 دنیا آج تک اسے بابائے کیمیا کے نام سے جانتی ہے۔ اہل مغرب ’’Geber ‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔ جابر بن حیان کو کیمیا کا بانی مانا جاتا ہے۔

 وہ کیمیا کے تمام عملی تجربات سے واقف تھا۔جس کی کتاب کیمیا اور تابعین کئی سو سالوں تک پڑھائی جاتی رہی۔

مسلمان حکمرانوں کا سلوک 

اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا تھا اور وہ بصرہ روپوش ہو گیا۔

 

مسلمانوں میں سائنس و تحقیقات کو ترویج دینے کی تجاویز

دنیا کے نقشہ پر 57 مسلم ممالک ہیں جن کی آبادی دو ارب کے قریب قریب ہے لیکن مغربی ممالک سے موازنہ کیا جائے تو اسلامی دنیا جدید سائنس سے بہت پیچھے ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ایک مسلسل سفر کا نام ہے اور جو ایجادات ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ تحقیق کا کام نہ کسی سائنسدان نے اکیلے کیا اور نہ ہی وہ ایک دن میں مکمل ہوا، ہر ایجاد کے پیچھے پہلے سے موجود کوئی نہ کوئی اقدام موجود ہوتا ہے جیسے آئی فون چودہ بنایا گیا ہے اس سے پہلے آئی فون موجود تھا جو آئی فون چودہ  کو اس مقام تک لے آیا  اور نئے خیالات کی ضرورت پڑی۔ یاد رکھیں سائنس بڑی عمارتوں اور لائبریریوں اور لیباٹریوں یوں کا نام نہیں بلکہ سائنس ایسے دماغوں کا نام ہے جو کائنات کی تخلیق کو غور فکر سے دیکھتے ہیں اور سائنس ایک جستجو کا نام ہے جو ہر انسان کے بس کی بات نہیں ۔

1.       جدید تحقیقاتی لیبارٹریز اور لائبریریز کا قیام 

·         مسلمان حکمرانوں کو چاہئے کہ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر تحقیقاتی لیبارٹریز قائم کی جائیں تاکہ جدید سائنس سے راہنمائی لی جا سکے۔  

·         خاص طور پر بائیو ٹیکنالوجی،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشیئل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی (artificial intelligence technology) کے شعبہ جات کے لیے مراکز اور لیبارٹریز تیار کرنی چاہیں اور ذہن و فطین سائنسدانوں کو مراعات دی جائیں اور ماضی کے محسنوں کی قدر کی جائے۔ 

·         پاکستان کی یونیورسٹیوں میں تحقیقاتی لیبارٹریز اور لائبریریز کی کمی ہے یہاں پر بھی موجودہ دور کے بڑے نام موجود ہیں جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عطاالرحمن، ڈاکٹر شاہد محمود بیگ(PSF)، ڈاکٹر عنصر پرویز، ڈاکٹرعبداللہ صادق،  ڈاکٹر ثمرمبارک(نیو کلیئر سائنسدان)، میجر جنرل عامر اکرام،ڈاکٹر قاسم مہدی(مالیکیولر بائیولوجسٹ)،ڈاکٹر عبن مارکر کبراجی(بائیو لوجسٹ)،ڈاکٹر فہیم حسین(LUMS)،ڈاکٹر محمد اشرف چوہدری، ڈاکٹر مختار احمد(ایچ ای سی)،ڈاکٹر تسنیم زہرہ حسین،ڈاکٹر نرگس موالوالہ،ڈاکٹر ملازم حسین بخاری  (پرنسپل AJKMC) و  دیگراں۔

·         یاد رکھیں سائنس بڑی عمارتوں اور لائبریریوں اور لیباٹریوں یوں کا نام نہیں بلکہ سائنس ایسے دماغوں کا نام ہے جو کائنات کی تخلیق کو غور فکر سے دیکھتے ہیں اور سائنس ایک جستجو کا نام ہے جو ہر انسان کے بس کی بات نہیں اس لیے ان بڑے دماغوں والے سائنسدانوں کی ایک کونسل بنائی جائے جو ملکی ضروریات کا جائزہ لیں اور اس کے مطابق مستقبل کا لائحہ عمل تیار کریں: آپ کو شاید یہ سن کر دھچکا لگے کہ نہ صرف یہ کہ خود اپنے گھر یعنی پاکستان میں ان ہیرو زکی قدر نہیں کی جاتی، کم لوگ ان کے کام سے واقف ہیں اور ان کا نام تفاخر کے بجائے تنازعہ پیدا کرتا ہے۔

 

 

2.       ریسرچ بجٹ اور سکالرشپ میں اضافہ 

پاکستان اور دوسری مسلمان حکومتوں کو چاہئے کہ سالانہ بجٹ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لیے فنڈز بڑھائے جائیں۔

3.       سائنس اور مذہب کے درمیان تناو میں کمی لانے کی ضرورت:

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم دنیا کے کئی حصوں میں سائنس اور مذہب میں تناوٗ موجود ہے جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔اس لیے مسلم سوسائٹی میں غیرسائنسی رویوں کو ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ انٹرنیٹ نے ان میں اضافہ کیا ہے۔

4.       اعلی معیار کے ریسرچ پیپرز لکھے جائیں 

·         ہر تحقیق کے بعد ریسرچ پیپرز لکھے جاتے ہیں مگر یہاں رواج کم ہے ۔

·         ہمارے ہاں جو ریسرچ پیپرز لکھے جاتے ہیں نہ تو معیاری ہوتے ہیں اور نہ ہی لکھے جانے والے ریسرچ پیپر کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

·         کل مسلم دنیا کے تحقیقاتی پیپرزپوری دنیا میں ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے اور امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے نکلنے والے ریسرچ پیپرز سے بھی کم ہوں گے۔

5.        قومی سائنسی انفراسٹرکچر کی تشکیلِ نو

·         مسلم ممالک اپنے قومی سائنسی انفراسٹرکچر کی تشکیلِ نو کریں اور ترقی یافتہ ممالک سے اپنے روابط زیادہ مربوط کریں۔

·         مسلمانوں کو جدید سائنس کے ساتھ ساتھ اپنی ایک ہزار سال پہلے کی سوچ کے طریقے سے راہنمائی لینے کی اور اس کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

6.       فقہی اختلافات میں کمی 

سائنسی جمود کی وجہ محض مذہبی قدامت پرستی گردانا جاتا ہے اس لیے مسلمان ممالک کو اپنے تمام فقہی اختلافات دور کر کے ایک نقطہ پر اتحاد کرنا ہوگا اور وہ ہے سائنس کو مذہب سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے میں ایران میں تہران رائل انسٹیٹیوٹ کی مثال دینا چاہوں گا۔ یہاں پر genetics ، organ transplants, artificial intelligence, stem cells and cloning  میں ہونے والی تحقیق آزادانہ ماحول میں ہو رہی ہے۔ اسی طرح ہر مسلم ملک ایک دوسرے سے تعاون کرے ۔

7.       ریسرچ کلچر کی تشکیل نو

اہم چیز سائنس میں ان بڑے سائنسدانوں اور ایجادات  سے زیادہ وہ ریسرچ اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا کلچر ہے جسے مسلمان ممالک میں پیدا کرنا بہت ضروری ہے اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اکیڈمک آزادی اور سائنسی طریقہ سمجھنا اور اس کے لئے سیاسی رضامندی کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی نشاۃ ثانیہ کو زندہ کر سکیں۔اس کلچر کی موجودگی میں ہی ترقی کی راہ میں قدم رکھا جا سکتا ہے اور  کی دریافتیں ممکن ہو سکتی ہیں ۔ ایسا کلچر جو تعصب سے پاک ہو ،جو سائنس اور ٹیکنالوجی و تحقیقات کا جذبہ رکھتا ہو ، جو علم کی اور سیکھنے کی پیاس رکھتا ہو۔اس کلچر میں مذہب، رنگ و نسل کی کوئی قید و بند نہیں ہونی چاہیے۔

 

حوالہ جات:

1.        https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%DB%8C%D8%B9%D9%82%D9%88%D8%A8_%D8%A7%D8%A8%D9%86_%D8%A7%D8%B3%D8%AD%D8%A7%D9%82_%D8%A7%D9%84%DA%A9%D9%86%D8%AF%DB%8C

2.       https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%A8%D9%86_%D8%B1%D8%B4%D8%AF

3.       https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%A8%DA%A9%D8%B1_%D8%A7%D9%84%D8%B1%D8%A7%D8%B2%DB%8C

4.       https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%A8%D9%86_%D8%B3%DB%8C%D9%86%D8%A7

5.       https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D8%AC%D8%A7%D8%A8%D8%B1_%D8%A8%D9%86_%D8%AD%DB%8C%D8%A7%D9%86