ارکان پارلیمان کی دولت میں 85 فیصد اضافہ، ایک فیصد قانون سازوں کے اثاثے دگنے ہوگئے

پانچ سالوں میں ارکان اسمبلی کی مجموعی دولت میں 85 فیصد اضافہ ہوا جبکہ صرف ایک فیصد قانون سازوں کے اثاثے 5 سالوں میں تقریباً دگنے ہو گئے۔ اس عرصے کے دوران عام پاکستانی شہری کی آمدن 197 ڈالرز پرکیپٹا کم ہوئی ہے۔

پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے 1,170 ارکان کی دولت 2015 میں 49 ارب روپے تھی جو 2019 میں بڑھ کر 91 ارب روپے ہو گئی۔ ارکان پارلیمنٹ کی دولت میں گزشتہ 5 مالی سالوں میں 85 فیصد اضافہ ہوا۔

انویسٹی گیشن یونٹ نے پارلیمنٹیرینز کی آمدنی کا تجزیہ کیا، جس میں انہیں ملنے والی تنخواہوں اور دیگر ذرائع سے حاصل کردہ معلومات، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر سرکاری ذرائع کو جمع کرائے گئے ان کے ٹیکس ریکارڈ کی چھان بین شامل ہے۔

ارکان پارلیمنٹ کی مجموعی دولت میں ان کے خاندان کے افراد کے اثاثے بھی شامل تھے جو ان پر منحصر تھے۔

ارکان پارلیمنٹ کے پاس سال 2018-19 کے دوران مجموعی طور پر 79.8 بلین روپے کی دولت اور اثاثے تھے، جو کہ 2019-20 میں 12 ارب روپے یعنی 15 فیصد اضافے سے 91 ارب روپے ہو گئے۔ ہر قانون ساز کی دولت میں 10 ملین روپے کا اوسط اضافہ ہوا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے پولیٹیکل فنانس ونگ، ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (آئی آر) اور دیگر سرکاری ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ قانون سازوں کے ملک کے اندر اور باہر پاس اثاثے موجود ہیں۔

انویسٹی گیشن یونٹ کی تحقیقات میں سامنے آیا کہ تقریباً 311 اراکین اسمبلی نے یا تو پرائیویٹ فرموں میں سرمایہ کاری کی تھی یا اپنا کاروبار چلا رہے تھے۔ ان کی مجموعی مالیت تقریباً 21 ارب روپے یا 130 ملین ڈالر تھی۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ 311 قانون سازوں میں سے 71 نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے پارلیمنٹ کا رکن بننے کے بعد کاروبار سے خود کو الگ کر لیا ہے لیکن ان کے ٹیکس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ڈیکلیئر کردہ اپنی دولت کے مقابلے زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

ٹیکس ادائیگی میں کمی

رپورٹ کے مطابق اوسطاً ایک رکن اسمبلی نے 2018-2019 میں تقریباً 1.4 ملین روپے یا تقریباً 7,000 ڈالر انکم ٹیکس ادا کیا جبکہ مجموعی طور پر ارکان پارلیمنٹ نے 19-2018 کے ٹیکس سال میں تقریباً 1.6 بلین روپے یا 11 ملین ڈالر ٹیکس ادا کیا۔

ٹیکس ادائیگی کا یہ تناسب 2019 میں 60 فیصد تک گر گیا، جب اراکین پارلیمنٹ نے اجتماعی طور پر صرف 980 ملین روپے یا 6 ملین ڈالر ٹیکس ادا کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اوسطاً فی قانون ساز ٹیکس کی مد میں 1.4 ملین روپے کی ادائیگی سے اوسط صرف 8 ملین روپے رہ گئی۔

ارب پتی کلب

سنہ 2014 اور 2019 کے درمیان مختلف پارلیمانی جماعتوں کے 200 اہم ارکان پارلیمنٹ کی دولت سے متعلق دستاویزات کا جائزہ لیا گیا اور تقریباً 25 ارکان پارلیمنٹ کو ارب پتی قرار دیا گیا، جب کہ 71 ارکان پارلیمنٹ کے پاس 500 ملین روپے سے زائد کے اثاثے ہیں۔

قانون سازوں کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات کے معائنے سے معلوم ہوا کہ کچھ ارکان پارلیمنٹ اور ان کے زیر کفالت افراد کی دولت یا اثاثوں میں 300 فیصد تک تیزی سے اضافہ ہوا۔

ارب پتی کلب میں شامل 48 ارکان پارلیمنٹ کے گزشتہ 5 سالوں میں اپنی دولت اور اثاثوں میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا جبکہ اس دوران ایک درجن ارکان پارلیمنٹ کے اس دولت میں 200 سے 300 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

رپورٹ کے مطابق تقریباً 29 ارکان پارلیمنٹ نے متحدہ عرب امارات، ناروے، ڈنمارک، برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا اور کینیڈا میں تقریباً 5 ارب روپے کے اثاثوں ڈکلیئر کیے۔

غریب ترین اراکین پارلیمنٹ

تقریباً 41 اراکین اسمبلی نے اعلان کیا کہ ان کے پاس انفرادی طور پر 10 لاکھ روپے سے کم کے اثاثے ہیں جبکہ تقریباً 111 ارکان پارلیمنٹ نے 10 ملین روپے سے کم مالیت کے اثاثوں کے مالک ہونے کا اعلان کیا۔

ٹیکس ادا نہیں کیا

سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ درجنوں ارکان پارلیمنٹ یا تو انکم ٹیکس ادا نہیں کر رہے تھے یا ٹیکس حکام میں رجسٹرڈ نہیں تھے۔ ایک ہزار 170 قانون سازوں میں سے 161 ارکان پارلیمنٹ نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے تھے۔

رپورٹ کے مطابق دو درجن سے زائد خواتین ارکان پارلیمنٹ کے اثاثے ان کے کروڑ پتی شوہروں کے ساتھ منسلک تھے لیکن حیرت انگیز طور پر وہ حکام کے پاس باقاعدہ ٹیکس دہندگان کے طور پر رجسٹرڈ نہیں تھیں۔

تقریباً دو درجن خواتین ارکان پارلیمنٹ کے پاس مجموعی طور پر 100 ملین روپے کے اثاثے تھے لیکن وہ ٹیکس حکام کے پاس بھی رجسٹرڈ نہیں تھیں۔ ایف بی آر میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے 37 سے زائد ایم پی ایز نے 101 ملین روپے سے زائد کے اثاثے ظاہر کیے تھے۔

ای سی پی اور ایف بی آر نے 70 اراکین اسمبلی کو نوٹس بھی بھیجے، جن کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا یا ان کے ڈیکلریشنز میں کچھ سنگین تضادات تھے۔

دستاویزات کے مطابق تقریباً 98 ارکان پارلیمنٹ کے پاس مجموعی طور پر 37 ارب روپے کے اثاثے ہیں جب کہ ان میں سے 12 کے پاس 500 ملین روپے سے زیادہ کے اثاثے ہیں لیکن وہ فعال ٹیکس دہندگان نہیں تھے۔

ایف بی آر اور الیکشن کمیشن حکام کے مطابق تقریباً 60فیصد ارکان پارلیمنٹ کی آمدن اور اثاثوں کے متعلق اعداد و شمار میں تضاد موجود ہے۔

سیاستدانوں کے اثاثے

سماء انویسٹی گیشن یونٹ نے اثاثوں میں اس اضافے کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش میں سرکردہ پارلیمانی جماعتوں کے ممتاز ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کا جائزہ لیا۔ ذیل میں چند نامور سیاستدانوں یا اثاثوں میں سب سے زیادہ کمی یا اضافہ ریکارڈ کرنے والوں کے اثاثے درج ہیں۔

 

 

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے اثاثوں میں 5 سال کے دوران 250 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اُن کے اثاثوں کی مالیت 2017کے دوران 4کروڑ روپے تھی جو 2019میں بڑھ کر 14.2کروڑ روپے ہو گئی۔

ایف بی آر کے مطابق 2019 عمران خان کی آمدنی 4.36کروڑ روپے تھی جس پر 99لاکھ روپے ٹیکس اداکیا گیا تاہم حیرت انگیز طور پر عمران خان کی جانب سے 2013 سے 2018 کے دوران مجموعی طور پر 17لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

سنہ 2013 میں انہوں نے 194,936روپے، 2014 میں 218,237 روپے، 2015میں 76,244روپے، 2016میں 159,609روپے ، 2017میں 103,763روپے اور 2018میں 282,449روپے ٹیکس ادا کیا۔

 

 

سرکاری دستاویزات کے مطابق گزشتہ 5 سال کے عرصہ میں وزیر اعظم شہباز شریف کے اثاثوں میں 25فیصد کمی دیکھنے کو ملی۔2015 میں 11.6کروڑ وپے کے قرض کے ساتھ اُن کے اثاثوں کی مالیت 24.1کروڑ روپے تھی جو 2019-20کے دوران 14.7کروڑ کے واجبات کے ساتھ 24.7کروڑ ریکارڈ کی گئی۔

دستاویزات کے مطابق 2019 میں 83 لاکھ ٹیکس ادائیگی کے بعد شہباز شریف کی آمدن 4.6کروڑ روپے رہی۔ 2015 میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کے اثاثوں کی مالیت 24.7کروڑ روپے اور تہمینہ درانی کے اثاثوں کی مالیت 90لاکھ روپے ریکارڈ کی گئی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے ٹیکس ریکارڈ کے مطابق اس عرصہ کے دوران اُن کے ٹیکس واجبات میں اضافہ ہوا۔ اُن کی جانب سے 2013 میں 4,383,138 روپے، 2014میں 4,888,122روپے، 2015 میں 6,330,632 روپے، 2016میں 7,038,777روپے ، 2017میں 8,268,298روپے اور 2018میں 9,730,545روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

سابق صدر آصف علی زرداری کے اثاثے 2019 میں 67.7 کروڑ روپے اور 2020 میں 71.5 کروڑ روپے تھے۔ ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق اُن کی آمدنی 28.3کروڑ روپے تھی اور اُنہوں نے 2019کے دوران 2,218,229روپے ٹیکس ادا کیا۔ آصف زرداری کی جانب سے 2013میں 1,385,025روپے، 2014میں 1,842,915روپے، 2016میں 2,105,565روپے، 2017میں 2,632,490روپے اور 2018میں 2,891,455روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

سابق وفاقی وزیر اور رکن قومی اسمبلی اسد عمر اور ان کی بیوی کے اثاثوں میں 2019کے دوران 7فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سنہ 2013 میں اُن کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 61.92کروڑ روپے تھی جو 2019کے دوران بڑھ کر 66.8کروڑ روپے ہو گئی۔

ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق اسد عمر کی جانب سے 2015میں 4,260,246روپے، 2016میں 368,864روپے، 2017کے دوران 4,849,615روپے ، 2018کے دوران 5,346,426روپے اور 2019کے دوران 4,272,426روپے ٹیکس ادا کیا۔

 

 

سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اثاثوں میں 2014(7.3کروڑ) سے 2019 (24.7کروڑ) کے دوران 241فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے پاس جمع کرائے گئے اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق شاہ محمود اور ان کی بیوی کے اثاثوں کی 2014میں مجموعی مالیت 7.25کروڑ روپے تھے تاہم 3 سال کے عرصہ میں اُن کے اثاثے تین گنا اضافے سے 27.83کروڑ ، 2014کے مقابلے میں 283.86فیصد بڑھ گئے۔

وائس چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے2013 میں 605,500روپے، 2014میں 1,533,731روپے، 2015میں 1,469,068روپے، 2016میں 1,862,414روپے، 2017میں 653,943اور 2018میں 183,900روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے 2019 میں 1.6ارب روپے کے اثاثے ظاہر کیے گئے۔ ایف بی آر ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق اُن کی عمومی آمدنی 3.9کروڑ روپے تھی اور 2019 میں اُن کی جانب سے 535,243 روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو کی جانب سے 2013 میں 303,692روپے، 2014 میں 419,056 روپے، 2017میں 237,152روپے اور 2018میں 294,117روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

سرکاری دستاویزات کے مطابق سابق وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید جو کہ غریب ترین رکن پارلیمنٹ کے طور پر جانے جاتے تھے کے اثاثوں میں بڑا اضافہ دیکھنے کو ملا۔

سنہ 2014-15میں مراد سعید کی جانب سے 4لاکھ روپے اثاثے ظاہر کیے گئے تھے جو 2019-20میں بڑھ کر 31لاکھ روپے ہو گئے۔ اُن کی جانب سے 2016 میں 34,941روپے، 2017میں 241,946روپے، 2018میں 374,727روپے اور 2019میں 86,606روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی اہلیہ کے اثاثوں میں بھی پانچ سال کے دوران 14فیصد کا اضافہ ہوا۔ چوہدری پرویز الٰہی اور اُن کی اہلیہ کے اثاثے 2019میں 22کروڑ روپے 60لاکھ رہے جب کہ 2015میں اُن کے اثاثے 19کروڑ 70لاکھ روپے تھے ۔ ایف بی آر کے ارکان پارلیمنٹ کے ٹیکس دستاویزات میں اُن کی عمومی آمدنی 7,214,174 روپے ظاہر کی گئی۔

چوہدری پرویز الہی کی جانب سے 2014میں 1,349,677روپے ، 2015میں 1,403,947روپے، 2016میں 1,482,588روپے، 2017میں 2,130,725روپے ، 2018میں 2,071,196روپے اور 2019میں 932,835روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

سماءانوسٹی گیشن یونٹ کی تحقیق میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے اور ممبر نیشنل اسمبلی مونس الٰہی کے اثاثے پانچ سال کے دوران 114فیصد بڑھے۔2015میں ان کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 65.2کروڑ روپے تھی جو 2019میں 1.4ارب ہو گئی۔ ایف بی آر ٹیکس ریکارڈ میں اُن کی عمومی آمدنی 3.54کروڑ روپے ظاہر کی گئی ۔

مونس الہیٰ کی جانب سے 2015میں 2,603,272روپے، 2016میں 5,186,489 روپے، 2017 میں 5,777,815روپے ، 2018 میں 5,168,918 روپے اور 2019میں 6,534,251 روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے اثاثوں میں 376 فیصد اضافہ

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اور اُن کے خاندان کے اثاثوں میں 2015سے 2019کے دوران 376 فیصد اضافہ ہوا۔ 2015 میں ان کی طرف سے اپنے اور بیوی کے اثاثوں کی مالیت 25.2کروڑ روپے ظاہر کی گئی تھی جو 2019میں بڑھ کر 1.2ارب روپے ہو گئی۔

جام کمال کی جانب سے 2013 میں 43,735روپے، 2014میں 257,361روپے، 2015میں 988,306روپے ، 2017میں 4,017,743روپے اور 2018میں 4,808,948روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کے خاندان کے اثاثوں میں 2015سے 2019کے دوران 7فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ 2015میں اُن کے ظاہر کردہ اثاثے 27کروڑ روپے تھے جو 2019میں 29کروڑ روپے ہو گئے۔ مراد علی شاہ کی جانب سے 2013میں 39,341روپے، 2014میں 6,567,495روپے، 2015میں 661,661روپے، 2017میں 710,789روپے اور 2018میں 7,376,945روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے اثاثوں میں 4مالی سال کے دوران کوئی تبدیلی دیکھی گئی۔ 2018میں اُن کے اثاثوں کی مالیت 2.4ارب روپے تھی جو 2019کے دوران بھی برقرار رہی۔ ایف بی آر کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق محمود خان کی جانب سے 2013اور 2014میں کوئی ٹیکس نہیں دیا گیا۔ جب کہ اُنہوں نے 2015میں 87,500روپے، 2017میں 232,725روپے، 2018میں 235,982روپے اور 2019میں اُن کی جانب سے 66,258روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے قدوسی مائننگ کمپنی لمیٹڈ کی ملکیت کے باوجود 2015میں اپنے اثاثے 5لاکھ روپے ظاہر کیے گئے۔ 2019میں اپنے اثاثے 30لاکھ ظاہر کرنے کے باوجود اُن کی طرف سے دس لاکھ سے زائد ٹیکس دیا گیا اور مؤقف اختیار کیا کہ اُن مائننگ کمپنی فعال نہیں ۔ بزنجو کی جانب سے 2017میں 997,400روپے، 2018میں 1,188,800روپے اور 2019میں 1,061,777روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

وزیر دفاع خواجہ آصف اور اُن کے اہلخانہ کے اثاثوں میں بظاہر کمی دیکھنے کو ملی۔ 2015 میں اُن کی جانب سے اثاثوں کی مالیت 3.7کروڑ ، 23.1کروڑ کے ایڈوانس، سرمایہ کاری اور قرضہ جات ظاہر کیے گئے تھے۔

خواجہ آصف کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ 2015-16میں اُن کے اثاثوں کی مالیت 23.2کروڑ روپے جبکہ 2017میں 25.2کروڑ روپے تھے جس میں پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی، ایم ایس AAAاور ایف ٹریڈرز سیالکوٹ اور ایم ایس ایراسمس پرائیویٹ لمیٹڈ سیالکوٹ کی 30لاکھ کی سرمایہ کاری شامل تھی۔

وزیر دفاع کی جانب سے 18.1کروڑ کے قرضہ جات ، ایم ایس طارق میر میں 2.35کروڑ روپے کی سرمایہ کاری اور چاول کی برآمد کے کاروبار میں 13کروڑ روپے کی سرمایہ کاری بھی ظاہر کی گئی۔ اُن کی جانب سے 2014میں 311,638روپے، 2015میں 466,630روپے، 2016میں 831,986روپے ، 2017میں 5,561,647روپے، 2018میں 4,371,129اور 2019میں 230,386روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی طرف سے جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق اُن کے اثاثوں میں 2015سے 2019کے دوران 55فیصد اضافہ ہوا۔ 2015 میں اُن کے اثاثوں کی مالیت 10کروڑ روپے (بشمول پلاٹوں، زمین کی قیمت کے) تھی جو 2019میں بڑھ کر 15.5کروڑ روپے ہو گئے۔

رانا ثناءاللہ کی جانب سے 2015میں 1,080,823روپے، 2016میں 1,228,936روپے، 2017میں 1,220,530روپے، 2018میں 1,388,275روپے اور 2019میں 2,994,713روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما خالد مقبول صدیقی کے اثاثوں میں 200فیصد کمی ریکارڈ کیا گیا۔

سنہ 2015میں اُن کے اثاثوں کی مالیت 3.1کروڑ روپے تھی جو 2019میں کم ہو کر 1.14کروڑ روپے ہو گئی۔ خالد مقبول کی جانب سے 2016میں 32,941روپے ، 2017میں 138,573روپے، 2019میں 202,291روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

صدر عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد کے اثاثوں میں 2014سے 2019کے دوران 278.68%اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

دستاویزات کے مطابق 2014 میں اُن کی جانب سے 3.94کروڑ روپے اثاثے ظاہر کیے گئے تھے۔ اگلے ایک سال کے دوران اُن کے اثاثے چار لاکھ کے معمولی اضافے کے بعد 3.98کروڑروپے ہو گئے۔ اگلے دو سال کے دوران اُن کے اثاثوں آہستہ آہستہ اضافے ہوا ، 2016میں اُن کے اثاثے 4.47کروڑ روپے اور 2017میں 4.67کروڑ روپے تک پہنچ گئے۔

شیخ رشید احمد کی جانب سے 2015میں 312,383روپے، 2016میں 505,966روپے، 2017میں 702,698روپے، 2018میں 579,011روپے اور 2019میں 557,450روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

وزیر آبی وسائل خورشید شاہ کے اثاثوں میں سرکاری دستاویزات کے مطابق 2015سے 2019کے دوران 92فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

دستاویزات کے مطابق سنہ 2015میں اُن کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 3.8کروڑ روپے تھی جو 2019 میں بڑھ کر 7کروڑ روپے ہو گئی۔ خورشید شاہ کی جانب سے 2015میں 113,740روپے، 2016میں 124,215روپے، 2018میں 305,100روپے اور 2019میں 59,857روپے اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

 

 

ممبر قومی اسمبلی شیریں مزاری کی اثاثوں میں گزشتہ 5 سالوں کے دوران 50فیصد کمی دیکھی گئی۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق 2013میں اُن کے اثاثوں کی مالیت 11.8کروڑ روپے تھی جو 2019میں 7.7کروڑ روپے اور قرضہ جات 35لاکھ روپے ہو گئے۔

شیریں مزاری کی جانب سے 2015میں 782,731روپے، 2016میں 1,347,054روپے ، 2017میں 1,569,558روپے ، 2018میں 2,435,650روپے اور 2019میں 371,033روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

سرکاری دستاویزات کے مطابق سابق وفاقی وزیر برائے آبی وسائل عمر ایوب خان اور ان کی بیوی کے اثاثوں میں 2014سے 2019کے دوران 203فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

دستاویزات کے مطابق 2014 میں اُن کی جانب سے الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے ساتھ اپنے اور بیوی کے اثاثے 46.18کروڑ روپے ظاہر کیے گئے تھے جو 2019میں بڑھ کر 1.4ارب روپے ہو گئے۔

عمر ایوب کی جانب سے 2015میں 3,488,142روپے، 2018میں 26,055,517روپے اور 2019میں 957,497روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

دوسری جانب ممبر قومی اسمبلی حماد اظہر اور اُن کی بیوی کے اثاثوں میں 17فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ 2018 میں اُن کے اثاثوں کی مالیت 30.99کروڑ روپے تھی جو 2019 میں بڑھ کر 35.06کروڑ روپے ہو گئی۔ حماد اظہر کی جانب سے 2018میں 59,444,145روپے اور 2019میں 18,088,703روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار کے اثاثوں میں 2013سے 2019کے دوران 127.8فیصد اضافہ ہوا اور اُن کے اثاثے جو 2013میں 10.93کروڑ روپے تھے 2019میں بڑھ کر 24.9کروڑ روپے ہو گئے۔

دستاویزات کے مطابق 2014میں خسرو بختیار کے اثاثوں کی مالیت 13کروڑ روپے تھی جو 2015میں دگنا اضافے سے 27.8کروڑ روپے ہو گئی ۔ 2016میں دوبارہ اُن کے اثاثے کم ہو کر 19.6کروڑ روپے رہ گئے اور اگلے تین برس پھر ان کے اثاثوں میں اضافہ دیکھا گیا۔خسرو بختیار کی جانب سے 2014میں 70,968روپے، 2015میں 253,206روپے، 2016میں 139,636روپے، 2017میں 475,573روپے، 2018میں 624,292روپے اور 2019میں 158,100روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

سابق وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی کے اثاثوں میں 2015سے 2019کے دوران 202فیصد اضافہ ہوا۔

اعظم خان سواتی کے اثاثے 2015میں 40کروڑ روپے ظاہر کیے گئے تھے جو 2019میں بڑھ کرایک ارب بیس کروڑ روپے ہو گئے۔ 2015سے 2019کے دوران اس کے قرضہ جات 41.7کروڑ سے بڑھ کر 81.1کروڑ روپے ہو گئے۔ اعظم سواتی کی جانب سے 2016میں 123,861روپے، 2017میں 764,197روپے، 2018میں 580,916روپے اور 2019میں 784,966روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

سابق اسپیکر قومی اسمبلی و سابق وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا کے اثاثوں میں 2013سے 2019کے دوران 152فیصد اضافہ ہوا۔ اُن کے اثاثوں کی مالیت 2013میں 6.5کروڑ روپے تھی جو 2019میں بڑھ کر 16.4کروڑ روپے ہو گئی۔ فہمیدہ مرزا کی جانب سے 2015میں 69,606روپے، 2016میں 84,214روپے، 2017میں 227,591روپے، 2018میں 187,052روپے اور 2019میں 98,063روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امیر حیدر ہوتی اور ان کی بیوی کے اثاثوں میں 247فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ 2015میں اُن کے اور ان کی بیوی کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 34.5کروڑ روپے تھی 2016میں یہ بڑھ کر 42کروڑ روپے ہو گئی۔ جب کہ 2019تک ان کے اثاثے بڑھ کر 1.2ارب روپے ہو گئے۔

امیر حیدر ہوتی کی جانب سے 2016میں 61,791روپے، 2017میں 168,586روپے، 2018میں 197,130روپے اور 2019میں 98,146روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی رہنما زبیدہ جلال اور اُن کے خاوند کے اثاثوں میں بہت کم وقت میں 1,189فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اُن کے اثاثوں کی مالیت جو 2017میں 90لاکھ روپے تھی 2019میں بڑھ 11.6کروڑ روپے ہو گئی۔ ایف بی آر ڈائریکٹری کے مطابق انہوں نے اس دوران کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔

اکثریتی ارکین پارلیمنٹ کے برعکس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے اثاثوں میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی ریکارڈ نہیں کی گئی۔ 2018 میں اُن کے اثاثوں کی مالیت 10کروڑ جب کہ 2019میں 10.63کروڑ روپے رہی۔

صادق سنجرانی کا ملائیشیا میں بھی کاروبار ہی جو بقول اُن کے 2008کے بعد سے فعال نہیں۔ اُن کی جانب سے 2018میں 1,363,414روپے اور 2019میں 1,399,327روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

 

 

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے اثاثوں کی مالیت 2015میں 1.3ارب روپے تھی تاہم اپنے اثاثوں کا ایک بڑا حصہ اپنے بیٹے کو تحفہ کرنے کے بعد اُن کے اثاثوں میں 1.2ارب روپے کی کمی دیکھی گئی۔ اُن کے اثاثوں کی موجودہ مالیت 9کروڑ روپے جب کہ 2019کے دوران 55.4کروڑ روپے عبداللہ عباسی کو تحفہ دے دیے گئے۔

شاہد خاقان عباسی کی آمدن 2.4کروڑ روپے رہی اور ایف بی آر ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق ان کی جانب سے 2013-14میں 1,205,974روپے، 2014میں 2,213,180روپے، 2015میں 2,489,030روپے، 2016میں 3,208,583روپے، 2017میں 378,9211روپے ، 2018میں 242,098,531اور 2019میں 4,871,277روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔

اثاثوں میں کمی اور اضافے سے متعلق ارکین اسمبلی کا مؤقف

سابق وریزاعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا مؤقف ہے کہ کافی عرصہ سے میں باقاعدگی سے ٹیکس ادا کر رہا ہوں۔ اس کے علاوہ میں ہر طرح کی دستاویزات میں شفافیت اور مکمل وضاحت کو ممکن بنایا ہے۔ میں سماء کے نمائندہ کو کسی بھی طرح جواب فراہم کرنے یا جواز پیش کرنے کا ذمہ دار نہیں۔ مجھ تک رسائی اور پوچھ گچھ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ذمہ داری ہے۔

جام کمال نے بتایا کہ وہ بلوچستان کے بڑے ٹیکس ادا کرنے والوں میں سے اور میرے تمام معاملات مکمل ثبوت اور جواز کے ساتھ ریکارڈ پر موجود ہیں۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے قانونی مشیروں نے بتایا کہ ہمارے مؤ کل 2014سے مسلسل ٹیکس ریٹرنز جمع کرا رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی نوٹس زیرِ التواءنہیں۔ ہم نے سیکشن 114تمام ٹیکس ریٹرنز متعلقہ سال کے دوران بغیر کسی تاخیر کے جمع کرا دیے تھے۔ تاہم وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے سماءانوسٹی گیشن یونٹ کے اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا کہ آپ نے مالی سال 2013-14اور 2014-15کے دوران کوئی ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائے، نہ آپ کے اثاثوں میں کوئی تبدیلی دیکھی گئی جب کہ آپ گزشتہ 5 سال سے مسلسل سے پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔

رہنما عوامی نیشنل پارٹی امیر حیدر ہوتی کی جانب سے نمائندہ کو بتایا گیا کہ میرے اثاثوں میں گزشتہ 5 سال کے دوران اضافے وجہ یہ ہے کہ مجھے اور میری بیوی کو والدین کی جانب سے ملنے والی وارثت کے باعث ہمارے اثاثے دگنا ہو گئے۔ اگلے کچھ سالوں کے دوران اثاثوں کے کچھ حصے میرے مجموعی اثاثوں میں شامل ہونا ابھی باقی ہیں۔

امیر حیدر ہوتی کا کہنا تھا کہ اپنے والدین سے وراثت کے علاوہ مجھے چچا کی طرف سے بھی حصہ ملا کیونکہ اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ تمام اثاثے الیکشن کمیشن کے پاس ظاہر کردہ ہیں اور میرے سارے خاندان نے ہمارے مشترکہ کاروبار پر ٹیکس بھی ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 2016اور 2019میں مجھے نوٹس بھجوائے گئے جس میں مجھ سے اثاثوں میں اضافے اور جمع کرائی گئی اور تفصیلی جواب میں تفتیشی ٹیم کو مطمئن کر دیا اور نوٹس ختم کر دیے گئے۔

اثاثوں میں اضافے کے حوالے سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اثاثوں اور دولت میں کوئی اضافے نہیں دیکھتی اور انہوں نے پاکستان میں اپنے ایک جائیداد کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے برطانیہ میں جائیداد خریدی۔

فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ چونکہ فروخت کی گئی جائیداد فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم کردہ تفصیلات میں مذکور ہے ، اس لیے اس جائیداد کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے خریدی گئی دوسری جائیداد نئی نہیں شمار کی جا سکتی۔

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ان کے اثاثوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ان کی زوجہ مہرین قریشی کو ان کی والدہ کی جانب سے تحفتاً دی گئی اور وراثت میں حاصل ہونے والی جائیداد کے ایک تہائی حصہ کی 2015-16میں فروخت سے حاصل ہونے والی 16.96کروڑ اور 2.26کروڑ روپے کی رقم ہے۔

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا مذکورہ فروخت کے تحریری ثبوت 16اکتوبر 2017کو الیکشن کمیشن کو فراہم کر دی گئی تھیں۔ علاوہ ازیں میرے اور میری زیرِسرپرستی خاندان کے دیگر افراد کے اثاثوں کی تفصیلات فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس موجود ہیں۔

عمرایوب کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بھی ان کے اثاثوں میں اضافے پر اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مذکورہ اضافہ بوجوہ بزنس گروپ کے قیام کے ہے اور اس میں نقدی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اثاثوں میں 107.1کروڑ روپے اضافے کے حوالے سے عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ن کے نووا سنپیک لمیٹڈ اور نووا جین فارماسیوٹیکل لمیٹڈ میں 107.1کروڑ کے شیئرہیں۔

ان کہنا تھا کہ اگر مذکورہ گروپ کے شیئرز کو ایک طرف رکھا جائے تو ان کے اثاثوں میں کمی دکھائی دے گئی چونکہ بطور وزیر حلف اٹھانے سے پہلے انہیں مذکورہ گروپ سے مستعفی ہونا پڑا۔ عمر ایوب نے بتایا کہ صرف گروپ کے قیام کے باعث ن کے اثاثوں میں اضافہ دکھائی دیتا ہے بصورت دیگر ایسا ممکن نہیں ، اثاثوں کی تفصیلات فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس موجود ہیں اور اگر ظاہر کردہ اور حقیقی اثاثوں میں کوئی فرق ہوتا تو یقینا ایف بی آر کی جانب سے اسے چیلنج کیا جاتا۔

شیخ رشید احمد کا مؤقف ہے کہ انہیں 2021میں زمین کی فروخت کے ایک معاہدے کے سلسلے میں 10کروڑ روپے ایڈوانس ملے۔ علاوہ ازیں میرے اثاثوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ جو اضافہ ہوا وہ صرف زمین کی فروخت کے حوالے سے معاہدے کے سلسلے میں حاصل ہونے والی ایڈوانس رقم سے ہوا اور اس کی تفصیلات فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم کی گئی ہیں۔

سینیٹر اعظم خان سواتی کی جانب سے نمائندے کو بتایا گیا کہ میرا معاملہ منفرد ہے۔ میرا پاکستان میں کوئی کاروبار اور آمدنی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ اگر ایف بی آر کے پاس میری اثاثوں کی جمع کرائی گئی تفصیلات کا الیکشن کمیشن کی تفصیلات کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اس میں اعداد و شمار کی غلطیاں موجود ہوں۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس اثاثوں اور واجب الادا قرضوں کی جانچ پڑتال کی اہلیت اور قابلیت نہیں۔ ہم (میاں اور بیوی) اکٹھے اثاثوں کی تفصیل جمع کرانے کی غلطی کرتے رہے۔ تاہم 2019میں ہم نے اس میں درستگی کی ہے اور اثاثوں کی علیحدہ تفصیلات جمع کرائیں کیونکہ میری بیوی مالی حوالے سے مجھ پر انحصار نہیں کرتی۔

مخدوم خسرو بختیار نے سماء کے نمائندے کو بتایا کہ میرے اثاثوں میں 2014سے 2019کے دوران اضافہ بنیادی طور پر ذرائع پر مشتمل ہے۔ (۱)۔ زرعی آمدن سے حاصل ہونے والی آمدن میں بچت۔ (۲)۔ زمین کی فروخت سے حاصل ہونے والی 4کروڑ کی رقم۔ (۳)۔ دو کروڑ روپے کے دیگر ذرائع۔ فوری دستیاب مواد کے مطابق 2017سے 2020کے دوران 2.75کروڑ روپے زرعی ٹیکس ادا کیا گیا۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ورثاء کو اثاثوں کی منتقلی کے باعث میرے اثاثوں میں کمی آئی۔ عبداللہ عباسی میرا بڑا بیٹا ہے جسے ایئر بلیو لمیٹڈ سے زیادہ حصہ ملا۔ میرا شمار گزشتہ 4 مالی سال کے دوران سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ میں اپنے کاروبار،جو اب ورثاءکو منتقل کر دیا گیا ہے، اسے حاصل ہونے والے منافع سے زیادہ ٹیکس ادا کیا۔ ٹیکس کی ادائیگی میں کمی کا موجب کاروباری شیئر میں کمی ہے۔ نیب میرے اثاثوں میں بے قاعدگیاں اور تضادات ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کی قانونی ٹیم کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل ٹیکس کا ریکارڈ بالکل صاف و شفاف ہے۔ ان کے کاروباری لین دین کی تفصیلات الیکشن کمیشن اور ٹیکس حکام کو فراہم کی گئی ہیں۔ قومی احتساب بیورو کی جانب سے بھی ان اثاثوں کی جانچ پڑتال کی گئی اور احتساب بیورو کی جانب سے اٹھائے گئے تمام سوالات پر قانونی مشیروں نے عدالت کو مطمئن کر دیا تھا لہٰذا ان کے اثاثوں پر کوئی سوال نہیں اٹھتا۔

زبیدہ جلال نے نمائندے کو بتایا کہ میرے فراہم کردہ اثاثوں کی تفصیلات میں کوئی واضح فرق موجود نہیں۔ گزشتہ انتخابات میں فراہم کردہ تفصیلات میں اثاثوں کی مالیت ظاہر نہیں کی گئی ، اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اثاثوں کی مالیت بھی طلب کی گئی ہیں۔ کوئلے کی کان کنی کے کام اور کاروبار میں اونچ نیچ رونما ہوتی رہتی ہیں۔ کوئلے کی قومی کان کنی کمپنی 1960سے میرے خاوند کی ملکیت ہے۔

حماد اظہر کا مؤقف ہے کہ یہ درست ہے کہ مالی سال 2018-19کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے مجھے دو بار نوٹس بھجوایا گیا تاہم میرے جوابات سے الیکشن کمیشن حکام مطمئن ہے۔ الیکشن کمیشن کو بتایا کہ میرے کے اثاثوں میں 3.36کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ میں نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ میرے اور میرے خاندان کے اثاثوں میں مالی سال 2018-19کے دوران مجموعی طور پر 8.16کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔

حماد اظہر نے انکشاف کیا کہ 2017-18میں ان کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 27.62کروڑ روپے تھی اور 2018-19میں انہوں نے 30.98کروڑ روپے کے اثاثے ظاہر کیے۔ میری بیوی مریم حماد کے اثاثوں کی مالیت 2017-18میں 23.04کروڑ روپے تھی جو 2018-19میں 27.84کروڑ روپے ہو گئی ، اس طرح اس کی اثاثوں میں 4.8کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان لاہور کے پاس جمع بیان حلفی میرے کمپنیوں میں حصص اور سرمایہ کاری کی علیحدہ تفصیل کی متقاضی تھی۔ الیکشن کمیشن کی طلب کرنے پر سرمایہ کاری کی یہ برائے نام رقم بھی مجموعی اثاثوں کی تفصیل میں مذکور ہے۔ میرے پی ٹی سی ایل اور میپل لیف کے شیئرز بھی ایف بی آر کے پاس 2018اور 2019میں جمع کرائے گئے ٹیکس ریٹرنز اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اسلام آباد کے پاس جمع کرائے گئے فارم ”ب“ میں ظاہر کیے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن تمام ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کی پابند

سابقہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ نئے انتخابی قوانین کے تحت الیکشن کمیشن کا پولیٹیکل فنانس ونگ تمام ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کی پابند ہے۔ کنور دلشاد کے مطابق اگر کوئی رکن پارلیمنٹ اپنے پوزیشن واضح کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے آرٹیکل 220کے اُس کا کیس نیب کو منتقل کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ معلوم ذرائع سے زائد اثاثوں بارے پتا چلا سکے۔