لاہور ہائیکورٹ نے گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کردیا، وزیراعلیٰ پنجاب بحال
چوہدری پرویزالہیٰ نے پنجاب اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا بیان حلفی لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرادیا، جس کے بعد عدالت نے گورنر پنجاب کا وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا، چوہدری پرویز الٰہی بطور وزیراعلیٰ پنجاب بحال ہوگئے۔ گورنر پنجاب کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ پرویز الٰہی کو پابند کریں کہ وہ 3 دن میں اعتماد کا ووٹ لیں گے۔
لاہور ہائیکورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق کیس کی وقفے کے بعد سماعت شروع ہوتے ہی وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے پنجاب اسمبلی تحلیل نہ کرنے سے متعلق پرویز الہٰی کا دستخط شدہ بیان حلفی عدالت میں جمع کرادیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ اعتماد کا ووٹ بھی لیں گے؟، بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کیا تو آئندہ سماعت تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔
گورنر پنجاب کے وکیل خالد اسحاق نے دلائل کا آغاز کردیا۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ پرویز الٰۃی کو پابندی کا جائے کہ وہ 3 روز میں اعتماد کا ووٹ لیں گے،ہمیں نوٹیفکیشن واپس لینے میں کوئی عار نہیں۔
وکیل گورنر پنجاب نے مزید کہا کہ انہیں پابند کیا جائے یہ لازمی اعتماد کا ووٹ لیں، دن لازمی مقرر کیا جائے جس دن یہ اعتماد کا ووٹ لیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے متعلق گورنر پنجاب کا نوٹیفکیشن معطل کردیا، جس کے بعد پرویز الٰہی بطور وزیراعلیٰ بحال ہوگئے۔
عدالت عالیہ نے چوہدری پرویز الٰہی کی انڈر ٹیکنگ (تحریری ضمانت) کی روشنی میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کا نوٹیفکیشن معطل کیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 11 جنوری تک جواب طلب کرلیا۔
عدالت کا تحریری حکم نامہ
لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کے عہدے پر بحال کرنے کی درخواست کا تحریری حکم جاری کردیا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے تحریری حکم میں کہا کہ عدالت کا یہ حکم چوہدری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے سے نہیں روکتا، درخواست میں اہم قانونی نکات اٹھائیں گئے ہیں، اس پر متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کئے جاتے ہیں۔
تحریری حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوہدری رپویز الٰہی کے وکیل کی جانب سے حلف دیا گیا کہ وہ اگلی سماعت تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے، اس لئے چوہدری پرویز الٰہی اور ان کی کابینہ عبوری اقدام کے طور پر بحال کی جاتی ہے۔
عدالت کا مزید کہنا ہے کہ گورنر پنجاب کا ڈی نوٹیفائی حکم معطل کیا جاتا ہے، وزیراعلیٰ اور کابینہ اپنی اصل پوزیشن پر بحال کی جاتی ہیں۔
ابتدائی کارروائی
وقفے سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کا کہا ہے تو اس پر عملدرآمد تو ہونا چاہیے۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کو ڈی نوٹی فائی کردیا گیا تھا، پرویز الہیٰ نے گورنر پنجاب کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا، اور پرویز الہٰی کی جانب سے درخواست دائر کر دی گئی۔
پرویز الہیٰ نے اپنی درخواست میں مؤقف پیش کیا کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے وزیراعلیٰ کو خط لکھا ہی نہیں، خط اسپیکر اسمبلی کو لکھا گیا، جب کہ وزیراعلیٰ کو لکھنا چاہئے تھا۔
درخواست میں استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایک اجلاس کے دوران گورنر دوسرا اجلاس طلب نہیں کر سکتے، گورنر کو اختیار نہیں کہ وہ غیر آٸینی طور پر وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفاٸی کرسکیں۔ عدالت گورنر پنجاب کے ڈی نوٹیفائی کرنے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے۔
پرویزالہیٰ کی درخواست پر جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی۔ پرویزالہیٰ کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے اسپیکر کو خط لکھا، وزیر اعلی نے اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار نہیں کیا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ اگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کا کہا ہے تو اس پر عملدرآمد تو ہونا چاہیے۔
بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف پیش کیا کہ اجلاس بلانے کے اختیارات اسپیکر کے پاس ہیں۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ رولز کے مطابق گورنر کو اعتماد کے ووٹ کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار ہے، مگر وہ تاریخ کتنے دن کی ہوگی وہ الگ بحث ہے، گورنر کا اختیار ہے کہ وہ جب مرضی ووٹ کا کہے۔
پرویز الہیٰ کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ رولز کے تحت کرسکتا ہے مگر آئین کے تحت نہیں، اجلاس ہوتا تو وزیر اعلی اعتماد کا ووٹ لیتے، وزیر اعلی نے ہوا میں تو اعتماد کا ووٹ نہیں لینا، گورنر کو اختیار نہیں ہے کہ وہ وزیر اعلی کو ہٹائے۔
بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ میرا نقطہ یہ ہے کہ پڑوسیوں کی لڑائی میں سزا مجھے کیوں ملے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر ان کے پاس کےاکثریت ہے تو پھر ڈر کس بات کا ہے، یہ سارا بحران ختم ہوسکتا ہے فیصلہ تو اسمبلی نے ہی کرنا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ میڈیا پر خبرآئی کہ ایک وزیر کی پرویز الہٰی کے ساتھ تکرار ہوئی اور اس نے استعفیٰ دے دیا، کہا گیاعمران خان نےبیان دیا کہ پرویزالہٰی کی کابینہ میں ایک اور وزیرکا اضافہ ہوا اور انہیں پتہ ہی نہیں، ان بنیادوں پرعدم اعتماد اوراعتماد کے ووٹ کا کہا گیا، ان کو یہ نظرنہیں آتا پرویزالہیٰ پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں یہ بیان بھی میڈیا پر آیا، وزیراعلیٰ نے بیان دیا کہ جنرل (ر ) باجوہ کیخلاف جو باتیں کی ہیں وہ عمران خان کو پسند نہیں آئیں۔
جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو منحصر ہے، گورنرصاحب ٹی وی کون سا دیکھتے ہیں۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ گورنر نے صرف ایک دن کے نوٹس پر ووٹ لینے کا کہا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ اس کے بعد پھر کیا ہوا؟۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر نے گورنر کے نوٹیفکیشن پر اپنی رولنگ دی۔
جسٹس عاصم حفیظ نے استفسار کیا کہ اگر جاری اجلاس میں گورنر نے ووٹ کا کہا تو پھر کیا ہوگا؟۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر پہلے جاری اجلاس کو ختم کرے گا پھر نیا اجلاس ہوگا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ رولز میں ایسا کچھ نہیں کہ جاری اجلاس میں اعتماد کا ووٹ کے لیے نہیں کہہ سکتے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس بات سے اتفاق کرتا ہوں، لیکن اجلاس کے لیے لاجک بھی ہونی چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ مسئلہ مناسب وقت ہے تو وہ حل ہوسکتا ہے، اگر اسپیکر کہہ دے کہ گورنر نے ووٹنگ کا جو وقت دیا ہے وہ مناسب نہیں، اور ووٹنگ کے لیے مناسب وقت دے پھر مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ اسپیکر ہی بتا سکتا ہے میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے کس بات کی سزا دی گئی، ہمارا ایشو ہے کہ وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ یہ ہم دیکھیں گے جو قانون کے مطابق ہوا فیصلہ کریں گے۔
بیرسٹرعلی ظفر نے مؤقف پیش کیا کہ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، صوبے میں کابینہ ہے مخلتف پراجیکٹس چل رہے ہیں، گورنرمتخب ہو کر نہیں آتا۔اگر وزیر اعلی رہے گا تو کابینہ بھی رہے گی، کابینہ کے بغیر وزیراعلیٰ نہیں رہ سکتا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے احکامات میں لکھا ہے کہ اگلے چیف منسٹرتک وزیر اعلی کام جاری رکھیں گے۔ ہم نے آپ کا نقطہ سمجھ لیا ہے، کیا دوسری طرف سے کوئی ہے، اگر گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کر دیں تو کیا اسمبلی تحلیل کردیں گے۔
جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے حکم پر عملدرآمد کیے بغیر آپ اسمبلی تحلیل نہیں کرسکتے۔ عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو ہدایات لے کر پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت دس منٹ تک ملتوی کردی۔
وفقے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو مزید ایک گھنٹے کی مہلت دے دی اور سماعت 6 بجے تک ملتوی کردی۔
جسٹس عابد عزیز نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں یہ لگ رہاتھا کہ آپ کہیں گے کہ اسمبلی کی تحلیل نہیں کریں گے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ ہم آئین کا مینڈیٹ معطل نہیں کرسکتے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ہم گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہیں تو ایسا نہ ہو آپ اسمبلی تحلیل کردیں، پرویز الہٰی انڈر ٹیکنگ دیں کہ نوٹیفکیشن معطلی پر اسمبلی نہیں توڑیں گے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم آپ کو ایک گھنٹہ اور دے دیتے ہیں آپ مشاورت کرلیں۔ عدالت نے پرویزالہٰی کے وکیل کو انڈر ٹیکنگ دینے کیلئے ایک گھنٹے کی مہلت دے دی۔
پرویزالہیٰ کی درخواست پر سماعت کے لئے بننے والا بینچ ٹوٹ گیا
اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کی ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست سماعت کے لئے مقرر کی، جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت شروع کی تو بینچ کے ایک رکن جسٹس فاروق حیدر نے سماعت سے معذرت کرلی۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے بتایا کہ جسٹس فاروق حیدر پرویز الہی کے وکیل رہے ہیں، معاملہ اہم نوعیت کا ہے، اس لئے ہم آج ہی یہ فائل چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھیج رہے ہیں، اور درخواست کررہے ہیں کہ درخواست کو آج ہی سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الہی کی درخواست پر سماعت کے لیے نیا لارجر بینچ تشکیل دے دیا، اور لارجر بینچ میں جسٹس فاروق حیدر کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ شامل کیا گیا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ لارجر بینچ کے سربراہ ہیں، جب کہ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس چوہدری محمد اقبال اور مزمل اختر شبیر شامل ہیں۔