ایس۔کے۔سمیع
جب میں سکول میں پڑھتا تھا تو ایک تعلیمی بورڈ میں ایک چپڑاسی میرے ایک رشتہ دار کا پڑوسی تھا جو شکل و لباس سے بڑا آفیسر لگتا تھا۔ اُس وقت امتحانی نتائج میں نمبروں کی بارش نہیں ھوتی تھی بلکہ پاس ھونا ہی غنیمت سمجھا جاتا تھا۔ کئی دفعہ اُس چپڑاسی کے ساتھ اُس کے دفتر جانا ھوا جہاں یہ بات معلوم ھوئی کہ وہ چائے دینے یا صفائی کے دوران کسی طالب علم کا کسی ایک مضمون میں حاصل کردہ نمبر نوٹ کرکے جس جس تک ممکن ھو میٹرک کا امتحان دینے والے طلباء کو پیغام بھیجواتا تھا کہ اسی مضمون میں وہ فیل ھے۔ اگر وہ تین ہزار روپے دے تو مشکل سے اتنے نمبرز دلوایے جا سکتے ہیں۔ اور جب طالب علم پیسے دیتا تو رزلٹ کے دن اُتنے ہی نمبرز ملتے تھے جتنے بتائے گئے تھے اسی طرح طالب علم کو یقین ھوجاتا کہ واقعی اس بندے کا ہی کمال ھے اور یو چپڑاسی کے گاہگ بڑھتے۔
تعلیم کے بعد جب میں پروفیشنل زندگی میں داخل ھوا تو اسی طرح کا واقعہ ایک اور سرکاری محکمے میں دیکھنے کو ملتا رہا۔ وہ سرکاری محکمہ جو اخبارات کو اشتہارات جاری کرتا ھے میں کچھ قاصد یا کلرکس کو اکثر پایا جو بالکل اسی طرح کچھ اخباری مالکان سے معمولی عوض حصول کرتے رہتے ہیں۔ وہ روزانہ کے ریکارڈ میں جھانک کر اخبار کا نام اور جاری شدہ اشتہار کا سائز اور نوعیت نوٹ کرکے مالک کو ٹیلفون پر بتاتے رھے کہ فلاں اشتہار میں نے اپ کے اخبار کو جاری کروایا اور وہ خوشی سے کچھ نہ کچھ بھیجوا دیتا ھے۔
کئی عرصہ سے یہی ماجرا سیاسی جماعتوں کے ساتھ ھو رہا ھے۔ جو بھی جماعت عوام میں مقبولیت حاصل کرنے لگتی ھے اسی کو اقتدار کا لالچ دے کر الیکٹیبلز اسی جماعت میں دھونسے جاتے ہیں اور وہ اپنے ہی ووٹ کے باوجود ایک بے بس اور کمزور حکومت بنا لیتی ھے جو بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھنے کے باوجود کچھ نہیں کر پاتے ہیں۔ اور ضرورت پڑنے پر بہت آسانی کے ساتھ ان کی حکومت کے خاتمے کی طرف مختلف مشورے منوا کر راستہ ہموار کیا جاتاھے۔
اگر سیاستدان اپنے ووٹ بینک یا اپنی نیک نیئتی اگر ھو، پر اعتماد کرتے اور اپنی ہی جماعت سے اپنے پارٹی منشور سے موافق لوگوں کو موقع دیتے تو بعد میں پچھتاوا نہ ھوتا۔