مورخہ 3-5 مئی 2023 کو ایران کے شہر تہران میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی جس کا موضوع تھا "میڈیکل ہیلتھ پروفیشنل ایجوکیشن”
جس میں پوری دنیا سے مایہ ناز میڈیکل ایجوکیشنسٹ آئے ہوئے تھے۔
یہ کانفرنس ہائبرڈ تھی کچھ لیکچرز آن لائین تھے اور کچھ ان سائیٹ تھے.
پروفیسر شعلے بگدالی (Prof Shoaleh Bigdeli) اور اس کی ٹیم نے پوری کانفرنس کو بہت اچھے طریقے سے منظم کیا تھا۔ انٹر نیٹ اور وائی فائی کی سہولت بہت تیز رفتار تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کر چکا ہے۔
ہمارا سفر لاہور سے شروع ہوا اور ہمارے تین ساتھی کراچی سے تہران پہنچے جن میں پروفیسر ندیم، پروفیسر شمیم اور ڈاکٹر تبسم زہرہ تھیں: ہمارے لاہور سے پروفیسر شہزاد انور، پروفیسر صائمہ بتول، پروفیسر آمنہ یوسف اور ڈاکٹر اسد علیشاہ تھے.
ان سے ماہرین نے بہت اچھے مقالہ جات پڑھے پروفیسر صائمہ بتول کا ٹاپک تھا Assessment of professionalism attitudes in students of government and private medical college using learner’s attitudes to medical professionalism scores (LAMPS)،پروفیسر شہزاد انور اور پروفیسر ملازم حسین بخاری کا ٹاپک تھا Relationship of Depression, Anxiety, and Stress with Academic Performance among University Students during COVID-19 Pandemic : حسن ظفر نے ایک اچھا مقالمہ پڑھا Interactive content design for micro learning Presenter:پروفیسر شمیم، پروفیسر نوید اور پروفیسر تبسم زہرہ آغا خان والوں نے Changing roles of Health Professions Education (HPE) in the digital era: competencies, expectations and impact Presenters: پر پلینری لیکچرز دئے ۔ میڈکل ایتھکس پر پاکستان کے پورے گروپس نے سیر حاصل سمپوزیم کروایا جو پوری دنیا سے بہت بہتر تھے ان کے مقالہ جات سے پاکستان کا نام بلند ہوا۔ اس کے علاوہ ایران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز والوں کے ساتھ مختلف امور پر گروپ ڈسکشنز ہوئی ایران میں پاکستانی وفد کی بہت پذیرائی ہوئی۔
جب ساتھ ہی ہم کھانے کی پر نجی محفلوں میں سوالات ہوئے کہ پاکستان کے پاس اتنا ٹیلنٹ ہے اس کے باوجود پاکستان اکنامیکل کرائسز economical crises سے گزر رہا ہے اور ڈیفالٹ default کی طرف جا رہا ہے: اس کی کیا وجہ ہے؟
اب ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا ان کا جواب ڈھونڈھنے کے لیے ہمیں اپنے سفر سے آغاز کرنا پڑے گا
تو آئیں پاکستان کی اس اکنامیکل گراوٹ economical down fall کی پہلی وجہ ڈھونڈتے ہیں؟
ایران کے پاس ہوائی جہاز پرانے ہیں مگر صاف ستھرے: چاک و چوبند آئر ہوسٹس اور کپتان؛ انتہائی اخلاق سے پیش آنے والا عملہ:
واش رومز خوشبودار: خاطر تواضع اعلی معیار کی تھی:
صحت افزا خوراک جس میں پستے: چاکلیٹ اور تازہ فروٹس شامل تھے: اتنا محفوظ سفر پاکستان میں جس دن متعارف ہو گیا پاکستان میں ٹورزم ڈیولپ ہو جائیگا اور پاکستان معاشی بدحالی سے بچ جائیگا “مگر ہنوز دلی دور است”
کیا ہماری پاکستان انٹر نیشنل آئر لائنز جس کے پاس نئے جہاز ہیں مگر بوڑھی اور تھکی ہوئی آئر ہوسٹس:
کیئر لیس عملہ جو خاطر توضع کے اصولوں سے نابلد: نااہل اور سفارش پر بھرتی کپتانز: غیر معیاری خوراک؛ گندگی سے بھرپور واش رومز، اس پر سونے پہ سوہاکہ آئے دن آئر کریشز اور اس پر ماشااللّہ ہماری خارجہ پالیسی کُہ کئی ممالک میں پی آئی اے کا کوئی جہاز نہیں جاتا: اس کے باوجود وقت کی پابندی نہیں ہوتی ہمارے جہاز لیٹ ہوتے ہیں۔
تو آپکو جواب مل گیا کہ تو پھر کیا ایسے جہازوں پر لوگ سفر کریں گے۔ یہ زرمبادلہ پھر کہاں جائیگا
ویزے کا نظام
ایران جانے کے لیے سب سے آسان ویزہ زیارات کا ہوتا ہے جو الیکٹرانک سسٹم کے تحت ملتا ہے جس کی فیس چھ ہزار کے قریب ہوتی ہے: ایک ہفتہ میں ویزہ مل جاتا ہے جو الیکٹرانک ویزا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آپ کے پاسپورٹ پر کہیں مہر لگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ آپ کو ویزا ایک کاغذ امیگریشن پر دینا ہوتا ہے اور وہ اسے آپ کے پاسپورٹ پر کوئی مہر لگائے بغیر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔
میں پوری دنیا میں سفر کر بیٹھا مگر اتنا آسان ویزا اعراق و شام کا بھی نہیں ہے: آپ کو کسی گروپ کی ضرورت نہیں ہے اپ کو کسی کفیل کی ضرورت نہیں ہے اپ اکیلے بھی سفر کر سکتے ہیں اور فیملی کے ساتھ بھی سفر پر جا سکتے ہیں
اس کے بعد آئر پورٹ پر نظم وظبط
ایران میں ائیر پورٹس پر چاک و چوبند عملہ بااخلاق اور مگر تیز رفتار چیکنگ اور بغیر کسی سوال و جواب کے سیکیورٹی آئر پورٹس کلیئرنس:
مرد و خواتین باہنر؛ چوری کا نام و نشان نہیں اگر اپ بھول کر کوئی چیز گم کر بیٹھتے ہیں تو اشیا گمشدہ پر روپورٹ درج کروائیں اپ کو وہ چیز وہاں ملے گی جہاں آپ موجود ہوں گے۔ ہمارے ایک پروفیسر کا لیپ ٹاپ تہران بھول گیا اور وہ خود مشہد آگئے: چوبیس گھنٹوں میں اس ہوٹل پر پہنچ گیا جہاں وہ مقیم تھے
(جبکہ واپسی پر لاہور آئیر پورٹس پر عمرے سے آئے ہوئیے لوگ رو رہے تھے کہ ہمارے آب زمُ زمُ نہیں مل رہے)
مسافروں کی رہنمائی کے لیے نشانات بھی موجود ہیں؛ کمپیوٹرز پر سوائے اردو کے باقی معلومات مہیا کی جاتی ہیں( اردو اس لیے نہیں کہ ہم اپنے ملک میں اس کو اپنی سرکاری زبان قرار نہیں دلوا سکے)
پھولوں سے سجے لانز اور قومی ہیروز کی داستان اور تصاویر: اور قومی پرچم کی نمائش
ہر مسافر کو پولیو کے قطرے اور ہیلتھ چیک اپ پروفارمہ کی دستیابی ( لاہور ائیر پورٹس پر واپسی پر آتے ہوئے ہم سے صرف پوچھا گیا کیا آپکی ویکسین ہوئی ہوئی ہے)
مشہد، تہران، اصفہان، شیراز کے ہوائی اڈوں پر ایک پرندہ بھی اڑتا ہوا نظر نہیں آئیگا: (جبکہ لاہور آئر پورٹس پر چیلوں اور گدھوں کا راج ہے)
ہوائی اڈوں پر اردو گرد کالونیوں کی عدم موجودگی ماحول کو نیچرل کرتے ہوئے محسوس ہوتئ ہے۔
پاکستان کے مالی خسارے کی دوسری بڑی وجہ
مسافروں سے بد سلوکی کا آئے دنوں واقعہ پیش آتا رہتا ہے۔
سفارش پر سیٹس بک ہوتئ ہیں اونچے درجے کے لوگوں کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے:
سامان کی چیکنگ اور مسافروں کا سامان چوری ہونا ہمارے ہوائی اڈوں پر معمول کی بات ہے: واپسی پر سیکیورٹی والوں کے ساتھ مک مکس: سیکورٹی چیکنگ میں لمبی لمبی قطار اور نااہل شفارش اور سیاسی وابستگی پر بھرتی سیکورٹی عملہ:
پاکستان کے ہوائی اڈوں پر نئے کمپیوٹرز مگر آئی ٹی سے کم آشنا عملہ جو مِلک و قوم کے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتا ہے ملک پر بوجھ ہے
کیا پاکستان میں آنے والے ہر مسافر کو ویکسین پلائی جاتی ہے؟
کیا ہیلتھ پروفارما چیک کئے جاتے ہیں؟
کیا ہمارے قومی پرچمز کو وہ عزت دی جاتی ہے؟ جو ہمارے ہمسایہ ملک میں دی جاتی ہے۔ ہوائی اڈوں کے ارد گرد رہائش کالونیاں خاص طور پر حکومتی کالونیاں عسکریز: پرندوں کی بھر مار: تو پھر ٹورزم والے لوگ کیسے ملک میں آئیں گے اور زر مبادلہ کیسے آئیگا اور ہم economical crises سے کیسے باہر آئیں گے۔ اس کی ذمہ دار صرف حکومت نہیں اسٹیبلشمنٹ، بیروکریسی نہیں ہم سب ہیں جو اپنے اداروں کو کمزور اور کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں۔
ائیرپورٹ سے ہوٹل تک کا سفر
تیسری وجہ کی تلاش ایران میں ایئر پورٹ سے ہوٹل کا سفر: پاکستان میں ٹورزم کا فقدان
ایران میں ٹورزم ایک بہت بڑی صنعت ہے جسکا پاکستان میں فقدان ہے: پاکستان ایک جنت بینظیر ہے جس سے ٹورزم کے شعبہ میں ترقی دے کر مالی خسارے کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
جب ہم ائرپورٹ سے ہوٹل جانے لگے تو ہمارا پہلا واستہ ٹیکسی والوں سے پڑا۔
ٹیکسی والے پوری دنیا میں ایک جیسے ہوتے ہیں مگر تہذیب کا مظاہرہ اس ملک و قوم کے مجموعی کلچر پر ہوتا ہے: اس لیے اپنے ملک کو سیاحوں کی جنت بنانے کے لیے نہایت باادب طریقے سے پیش آنا ایران کو تہذیب یافتہ قوم ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے؛ کیا کبھی آپ نے اپنے ٹیکسی ڈرائیورز کے روئیے کو نوٹ کیا تو کس مزاج اور رویے۔ (کیا اپ نے کبھی اپنے ٹیکسی والوں کو دیکھا کیا اپ نے کبھی اندرون شہر اپنے نظام آمدورفت پر غور کیا اگر کیا ہے تو پاکستان کے مالی خسارے کی وجوہات سامنے آ جاہیں گی)
ایران میں پرانی ٹیکسیاں اور پرانی گاڑیاں مگر اپنے ملک کی بنی ہوئی ہیں: ایران اپنی گاڑیاں سو فیصد خود تیار کر رہا ہے۔ گاڑیاں، موٹر سائیکل اور میٹرو اپنی اپنی لینز میں بغیر ہارن کے جا رہی ہوتی ہیں وہاں ہارن بجانا اور بے جا لائنز توڑنا غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔
(کیا اپ نے اپنی گاڑیوں کو دیکھا سب کی سب امپورٹڈ اور نئے ماڈل کی گاڑیاں جس سے زرمبادلہ کا نقصان ہوتا ہے اور ملک معاشی بحران کا شکار ہوتا ہے) پاکستان میں ٹریفک کا نظام بہت ہی بُرا ہے، ہارن بجانا، لائنز توڑنا، اورٹیک کرنا، موٹر سائیکلوں کے بے ہنگم جلوس ہمارے نظام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے
ایران ایک ایسا ملک ہے جسمیں ایکسپورٹ زیادہ ہے اور امپورٹ نہ ہونے کے برابر: کہیں کہیں چائنیز پراڈکٹس نظر آتی ہیں: (پاکستان کی ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر اور امپورٹ میں اضافہ)
امریکی پابندیوں نے اس ملک کو اور مضبوط بنا دیا ہے اور خارجہ پالیسی کے لحاظ سے سعودی عرب کے قریب ہو رہا ہے اور دونوں ملکوں میں وفود کا تبادلہ جاری ہے۔ ایران مقروض نہیں ہے مگر پاکستان اپنے قرضوں کے سود اتارنے کے لیے قرضے لیتا ہے جو پاکستان کو مالی بدحالی میں جانے کی بڑی وجہ ہے)
اشیا خورد نوش، روزمرہ کی ضروریات و ادویات
جب ہم ہوٹل پہنچے تو وہاں ملاوٹ سے پاک و پاکیزہ خورد و نوش کی اشیا مہیا کی گئیں جو انتہائی سستے داموں میں تھیں۔
تازہ فروٹس میں مالٹے، کیلے، سیب اور کیوی ، خشک میوہ جات میں پستی اور کاجو ہر محفل کی رونق تھے، کھانوں میں عمدہ اور لزیز لسی سب کی توجہ کا مرکز رہی۔
شاپنگ کرتے وقت اپ جتنا مرضی ڈرائی فروٹس کھا لیں دوکاندار بُرا نہیں مناتے اور اپ کو خود احساس ہوتا ہے یار اب یہاں سے کچھ نہ لچھ خرید ہی لیں۔
ادویات کی ملاوٹ کو جرم موت کے برابر ہے تو سوچیں کیا ایسا ماحول ہمارے ہیں موجود ہے کیا پاکستان میں کہیں کوئی خالص دودھ، دہی، لسی، چائے یاد ادویات مل سکتی ہیں تو اپ کو جواب مل جائیگا کہ ہم فنانشئل کراسز میں کیوں نہ جائیں
مذید وجوہات کہ ہم ایک قوم نہیں ہیں
پاکستان بہت خوبصورت اور نعمتوں سے مزئن ملک ہے جسے ہم نے تباہ و برباد کر دیا ہے اتنی نعمتیں شاید ہی ایران میں نہ ہوں جو اس ملک پاکستان میں خدا تعالی نے دے رکھی ہیں مگر ان نعمتوں کو ہم سب ضائع کر رہے ہیں: پاکستان (917,956 کلومیٹر ) ایران سے رقبہ کے لحاظ( 1,648,195 کلومیٹر) سے چھوٹا مگر آبادی کے لحاظ سے تین گنا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کی آبادی 220,892,340 اور ایران کی آبادی 83,992,949 ہے اس زیادہ آبادی اور کم وسائل اور ان وسائل کا ضیاع اد ملک کی غربت کی بڑی وجہ ہے
پاکستان کو اللہ نے ہر قسم کی نعمت سے نواز رکھا ہے، پھلوں، اناج، اور سبزیات، کے لحاظ سے مجموعی طور پر پوری دنیا میں ساتویں یا اٹھویں نمبر پر آتاہے،
پاکستان کا نہری نظام ایران سے کہیں بڑا ہے اور گندم اور چاول کی پیداوار میں دنیا میں اپنا مقام رکھتا ہے، ایران سے زیادہ ہے اور جنوبی امریکہ کے برابر ہے: یہ ملک مجموعی زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پچیسویں نمبر پر ہے اور صنعتی اعتبار سے پچپن نمبر پر ہے، کوئلے اور تانبے کے لحاظ سے پوری دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے اور اس کی معیشت دنیا میں 23 ویں نمبر پر ہے۔ یہ ملک سبزیات میں مٹر پیدا کرنیوالا دوسرا بڑا ملک ہے اور پیاز، ٹماٹر اور سبزیات کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر، پاکستان زرعی پیداوار میں ، کپاس، گنے اور چاول اور گندم کی پیداوار میں بالترتیب چوتھے، چھٹے اور ساتویں نمبر پر ہے،
پھلوں میں خوبانی، مالٹے کنو، آم اورکھجور کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے یا ساتویں نمبر پر ہے۔
پاکستان دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے مگر عوام کا گزارہ امپورٹڈ ملک پیکز پر ہے
وجوہات
غیر مستحکم کرپٹ سیاسی، بوسیدہ بیوروکریٹک اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ نظام اس ملک کو آگے نہیں بڑھنے دے رہا۔
قانون کی کمزور علمداری اور نظام تعلیم میں جدیدیت کی کمی ایک بہت بڑا خلا ہے جو یہ ملک پچھلے پچھتر سال سے چلا رہا ہے۔
اپنے ہمسایہ ممالک سے ناچاقی اور طاقتور عالمی حکومتوں کی غلامی پاکستان کو کبھی بھی ترقی نہیں کرنے دے گی۔ پاکستان کے وسائل کا ضیاع اور سمگلنگ؛
ایکسپورٹ میں کمی اور اپمورٹ میں اضافہ معاشی بدحالی کا باعث ہیں:
قرضوں میں اضافہ اور مالی کرپشن پاکستان کو کمزور سے کمزور کرتی جا رہا ہے۔
غیر ملکی اشیا، مہنگی اور بڑے سائز کی نئی گاڑیاں، نئے امپورٹڈ موبائل، لیپ ٹاپز و دیگر ٹیکنالوجیز پر انحصار پاکستان کی بدحالی کا باعث ہیں۔
کاش ہم سب ایک آزاد قوم بن کر اپنے ملک میں قانون کے مطابق زندگی گزاریں، سیاسی استحکام پیدا کریں اور ملک کے وسائل کے مطابق اخراجات کریں اور اپنے کلچر کو فروغ دیں تاکہ ملک ترقی کر سکے، ملک کے نظام تعلیم میں قرآن و سنت کی عمل دار شروع کریں اور اپنے بچوں میں ادب و تہذیب کا بیج بوئیں، حکومت ایسے وسائل پیدا کرے جس سے ہنر مند طبقہ پیدا ہو، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشیئل ٹیکنالوجی کو فروغ دے اپنی خارجہ پالیسی پرامن بنائے اور ہمسائوں کے ساتھ اچھے تعلقات پیدا کرے، سمگلنگ کو روک اور اپنے زرعی وسائل کو محفوظ کرے اور سب سے بڑھ کر دہشت گردے، مذہبی منافرت اور تعصب کو ختم کروائے اور محفوظ ٹورزم کو فروغ دے تو انشااللہ ہم بہت جلد دوبارہ اسی پاکستان کی طرف چلے جائیں گے جس کا خواب قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔
وسلام