اکستان میں مارچ 2023 کی حالیہ بارشیں کسی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں

پروفیسر مُلازم حسین بخاری

جمعہ کے دن جب ہم ایک میٹنگ کے سلسلے کے لیے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں سے لاہور جانے لگے تو راستے میں موسلادھار بارش شروع ہوئی ہم بھیرہ میں کچھ دیر کے لیے رُک گئے کہ کہیں ژالہ باری نہ شروع ہو جائے: لاہور میں بہت تیز بارش اور ہفتہ کو پھر طوفانی بارشیں،پچھلے سال انہیں بارشوں کیوجہ سے سیلاب سے جو تباہ کاریاں ہوئیں ان کے اثرات ابھی تک کم نہیں ہو سکے۔ اس میں سیکڑوں بچوں سمیت تقریباً ایک ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ سیلاب سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں، اور باون
لاکھ لوگوں کو سیلاب کی مصیبتوں سے نجات دلانے کا مشکل کام اب فلڈ ریسپانس پلان کے کندھوں پر آ پڑا ہے ۔

اس موسمی تبدیلی کی کیا وجہ ہے:

پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جو آب و ہوا سے پیدا ہونے والے خطرات کی زد میں رہتا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی آباد کاری بہت بڑا اور سنگین مسئلہ ہے۔

آج سے پچاس سال پہلے لاہور میں جن جگہوں پر گندم اور چاول کے کھیت ہوتے تھے آج وہاں پر ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاون بن چکے ہیں، پہاڑی علاقوں کو کم کر کے آباد کاری اور پلازے بنائے جا رہے ہیں جنگلات کو کاٹ کر آبادیاں قائم کی جا رہی ہیں جنگلی جانور اورپرندے جو فطرت کے ایکو سسٹم کا حصہ تھے وہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں ۔

جس سے پاکستان میں موسم تبدیل ہو گیا ہے اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس تبدیلی کیوجہ سے نہ صرف سیلاب کے خطرات بڑھ گئے ہیں بلکہ زلزلے بھی آ سکتے ہیں: ۔

بے وقت کے مون سون سے نمٹنےکے لئے کیا کیا جائے ؟؟

اس سال بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مون سون سسٹم نے اپنا روایتی راستہ بدل لیا ہے اور اس کے پاکستان میں انسانی تحفظ پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے ۔پاکستان میں یہاں کے سخت موسمی حالات ایک چیلنج ہیں جس سے پاکستان کو نمٹنا پڑے گا، 
2022 کے سیلاب میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات سے بچا جا سکتا تھا اگر حکومت اپنی ترجیحات میں سیاست کی بجائے خدمت کو رکھتی اور مستقبل میں دوبارہ ایسا ہونے سے بچنے کے لیے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ہے اور ادھر کوہ سلیمان سے دوبارہ سیلابی نالے سر اُٹھا رہے ہیں ۔

بارشیں تو دنیا کے باقی علاقوں میں پاکستان سے بھی زیادہ آتی ہیں مگر وہاں نقصان کم ہوتا ہے  وہاں پر حکومتیں پانی کے بہاؤ اور زمینی کٹاؤ کا بہترین طریقے سے انتظامات کرتی ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کے دوران ہونے والے زیادہ تر نقصانات دراصل ناقص حکومتی اقدامات اور کمزور معیشت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

حکومت اس دفعہ انٹرنیشنل لیول پر ایک سینمار کا انتظام کرے اور ماہرین کی آراء کی روشنی میں لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرے ورنہ کب تک ہم کشکول اُٹھائے دنیا سے امداد کی بھیک مانگتے رہیں گے اور امداد آبھی جائے تو وہ نہ تو سیلابوں کو روک سکتی ہے اور نہ ہی سیلاب زدگان تک پہنچ پاتی ہے  ۔

پاکستان کی حکومت دریاؤں کے اندر بھل کی نکاسی کا صیح انتظام نہیں کر پائی بلکہ دریاؤں کے کناروں آبادکار ایک اور بڑا گناہ ہے جو حکومتی نمائندگان کرتے ہیں۔

ایسی آبادیوں کو وہاں سے منتقل کیا جائے اور دریائے سندھ کے مغربی راستوں کو دوبارہ بحال کیا جائے تاکہ برساتی پانی ان راستوں سے گزرتا ہوا سمندر جا گرے ورنہ دوبارہ ہمارا حال وہی ہوگا جو پچھلے سال ہوا تھا۔

اس کے علاوہ گرین ہاوسز بنائے جائیں تاکہ موسم کی تبدیلی کو روکا جا سکے اس وقت پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان گرین ہاوسز بننے میں ایک فیصد سے بھی کم کام کر رہا ہے اور آبادی کے بڑھاؤ کی وجہ سے ایگرکلچر لینڈ۔ جنگلات میں کمی اور ندی نالوں پر آبادی کا طوفان پوری دنیا سے زیادہ نظر اتا ہے۔

آخر میں تجویز ہے کہ حکومت فوری طور پر ماہرین پرمشتمل ٹیم بنائے اور کثیر المقاصد اور طویل مدتی منصوبوں پر کام شروع کرے ورنہ خاکم بدہن

“ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک ”