عمران خان کو مکمل طور پر صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار

اسلام آباد (92 نیوز) – سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ عمران خان کو مکمل طور پر صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا، اسے سیاسی رنگ دیا گیا۔

انہوں نے نے کہا کہ عمران خان کو تین نکا ت پر صادق اور امین قرار دیا تھا، اکرم شیخ نے عمران خان سے متعلق تین نکات لکھ کر دیے کہ ان پر فیصلہ کیا جائے، تینوں نکات پر عمران خان صادق اور امین ثابت ہوئے تھے۔

جسٹس (ر) ثاقب نثار نے کہا کہ آج کل عدالتی فیصلوں پر وہ بات کر رہے ہیں جنہیں قانون کی زیر زبر معلوم نہیں، جو شخص آج عدالتوں پر حملہ آور ہے وہ کبھی عدالتوں کا پسندیدہ رہا ہے، صرف ایک مقدمے کے سوا اسے ہمیشہ عدالتوں سے ریلیف ہی ملتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب چیف جسٹس نہیں بنا تھا تو نواز شریف نے مختلف حلقوں میں کہنا شروع کیا کہ یہ اپنا چیف ہے، میں نے پاناما کیس میں خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا اور نااہلی کیس میں میعاد سے متعلق اوپن نوٹس کردیا تھا کہ جو بھی معاونت کرنا چاہے کرے، نااہلی کی میعاد کا تقرر آئین قانون کی روشنی میں کیا۔

سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دو روز سے میرا واٹس ایپ ہیک ہو گیا ہے ، ابھی تک ریکور نہیں ہوا، خدشہ ہے کہ میرے موبائل ڈیٹا کو کسی خاص مقصد کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم میرا واٹس ایپ ہیک کرنے والوں کو شرمندگی ہی ہوگی۔

جسٹس (ر) ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ پی کے ایل آئی کی فارنزک رپورٹ کا اگر کوئی جائزہ لے تو سر پکڑ کر بیٹھ جائے، پی کے ایل آئی کے سربراہ کو ایک پیر کے کہنے پر لگایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کے مسائل کا حل الیکشن میں ہے، 2018میں بھی الیکشن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں جسے ناکام بنایا تھا جس کے گواہ بابر یعقوب ہیں۔

سابق چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے غلط فیصلے کیے ہوں گے لیکن ملک کی بقاء کے لیے جو فیصلے کیے ان پر عملدرآمد کیوں نہیں کرتے؟

جسٹس (ر) ثاقب نثار سے سوال کیا گیا کہ پاناما کیس میں آپ پر نواز شریف کو نااہل کرانے کے لیے جنرل (ر) فیض نے دباؤ ڈالا؟ اس پر ثاقب نثار نے کہا کہ جنرل (ر) فیض کون ہے جو مجھ پر دباؤ ڈالتا؟، میں جنرل (ر) باجوہ سے اس دعوے کے بارے میں بات کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں میں عمران کے لیے عدلیہ میں لابنگ کر رہا ہوں، میں کیوں عمران کے لیے عدلیہ میں لابنگ کروں گا؟ مجھے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔ ثاقب نثار نے کہا کہ میں اب کسی کو انٹرویو نہیں دوں گا، میرے مرنے کے بعد ایک کتاب شائع ہوگی جس میں تمام حقائق ہوں گے، 1997سے لے کر چیف جسٹس کے عہدے تک کی ساری کہانی لکھوں گا۔