اندرون سندھ سے کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم بھرتی کرنے والا گروہ بےنقاب

رواں ماہ 8 فروری کو کراچی میں واقع ڈاو میڈیکل سینٹر میں 11 سالہ لڑکا زخمی حالت میں لایا گیا تھا جو دوران علاج انتقال کر گیا۔ متوفی کی شناخت رفیق ولد قبول کے نام سے ہوئی جو کہ اندرون سندھ ضلع تھرپارکر کا رہائشی تھا۔

بچے کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا مگر لواحقین نے پوسٹ مارٹم کے لیے انکار کرتے ہوئے لاش آبائی گاوں لے جا کر تدفین کر دی۔ اسی دوران میڈیا پر خبر نشر ہوئی کہ گلشن اقبال میں گھر کی ملکن نے ایک لڑکے کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کر دیا ہے۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی کے احکامات پر مجموعہ تعزیرات کی دفعہ 302، 324، 334، 337(اے) اور پریوینشن آف ٹریفکنگ ان پرسن ایکٹ کی دفعہ ¾ کے تحت گلشن اقبال تھانے میں درج کیا گیا۔ اندارج مقدمہ کے بعد پولیس نے گلشن اقبال کے علاقے 13 ڈی میں کاروائی کرتے ہوئے گھر کی مالکن شیرین اسد کو گرفتار کر لیا۔

پولیس کو اپنے بیان میں مقتول کے والد قبول نے بتایا کہ وہ ضلع تھرپارکرکا رہائشی ہے اور اس نے اپنے تین بیٹوں 16 سالہ رزاق، 13 سالہ رشید اور 11 سالہ رفیق (مقتول) کو کراچی میں مقیم ایک شخص، جس کا نام سلیم ہے، کو 15000 روپے ماہانہ پر ایک گھر میں بطور گھریلو ملازمین رکھوایا تھا۔

مقتول کے والد کے مطابق، ان کو انکے کزن، جس کا نام صدام ہے، نے بذریعہ موبائل کال اطلای دی کہ رفیق کا انتقال ہو گیا ہے۔ اگلے دن میرا چھوٹا بھائی، جس کا نام مٹھا خان ہے، وہ میرے چھوٹے بیٹے کی لاش اور دونوں بڑے بیٹوں کو لیکر تھرپارکر آ گیا۔ رفیق کی تدفین کے بعد میں انے اپنے دونوں بیٹوں سے پوچھ گچھ کی تو سب سے بڑے بیٹے رزاق نے بتایا کہ بگلے کی مالکن ان پر تشدد کرتی تھی۔

رزاق نے بتایا کہ شیریں اسد، گھر کی مالکن، رفیق کو گرم چمٹے سے جلاتی تھی۔ اس نے مزید بتایا کہ شیریں اسد نے اس کے ناخن پلاس سے نکالے ہیں اور رفیق کو سر پر پلاس سے زور زور سے مارا جس کے بعد اس کا انتقال ہو گیا۔

ایس ایس پی انوسٹی گیشن ایسٹّ-ون طارق الہی مستوئی نے سما ڈیجیٹل کو بتایا کہ ملزمہ شیریں اسد کو گرفتار کر کے 11 فروری کو جودیشل مجسٹریٹ (ایسٹ) کے سامنے پیش کیا گیا اور عدالت نے تفتیش کے لیے ملزمہ کو 5 دن کے فزیکل ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے، جس سے تفتیش جاری ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق پولیس نے مقتول کے والد کے بیان پر تفتیش شروع کی ہے جس کے مطابق اس نے سلیم نامی شخص کو اپنے تینوں بچوں کو ماہانہ 15000 روپے کے عوض دیا تھا۔ پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے سلیم کو گرفتار کر لیا ہے جس نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا ہے کہ وہ اندرون سندھ سے کم عمر بچوں کو کراچی لا کر مختلف علاقوں میں بطور گھریلو ملازم بھرتی کرتا ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق ملزم نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت کراچی میں کم عمر بچوں کی بطور گھریلو ملازمین کی بھرتی میں تین گروہ ملوث ہیں جن میں سے ایک گروہ وہ خود چلا رہا ہے۔ ملزم نے مزید بتایا کہ کم عمر بچوں کو ٹھیکے پر بھرتی کرتا اور اور ان کے والدین کو ایک مخصوص رقم ماہانہ ادا کی جاتی ہے، تاہم ان کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ مالک مکان سے کتنی رقم وصول کر رہے ہیں۔

ملزم کا کہنا تھا کہ وہ کئی سالوں سے یہ کام کر رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کے رابطوں میں اضافہ ہوا ہے اور اب اس کو نشاندہی کرنے میں دقت پیش نہیں آتی کہ کس گھر میں ملازم کی ضرورت ہے۔ ملزم کے مطابق اسی طرح اندرون سندھ میں مقیم افراد کو بھی معلوم ہے کہ اگر ان اپنے بچوں کو مزدوری کے لیے کراچی بھیجنا ہے تو اس کام کے لیے اس سے رابطہ کرنا ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق ملزم تھرپارکر، بدین، سکھر اور شکارپور سے کم عمر بچوں کو کراچی لا کر گھریلو ملازم بھرتی کرتا ہے۔