پولیس نے کمسن بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنیوالے ملزم کو کیسے شناخت کیا؟

قائد پولیس نے لانڈھی میں 7 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنیوالے ملزم کی گرفتاری بدھ کو ظاہر کردی۔قائد پولیس نے لانڈھی میں 7 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنیوالے ملزم کی گرفتاری بدھ کو ظاہر کردی۔

سندھ اور خیبرپختونخوا پولیس نے مانسہرہ کے علاقے جلال آباد میں مشترکہ کارروائی کرکے ملزم کو گرفتار کیا۔

متاثرہ بچی منیبہ 16 نومبر 2022ء کو اپنے گھر سے باہر جانے کے بعد پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئی تھی۔

اس کی لاش لانڈھی کے مسلم آباد کے رہائشی نے اس کے لاپتہ ہونے کے 2 دن بعد 18 نومبر کو اپنے گھر کی چھت پر دیکھی۔

بچی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) منتقل کیا گیا جہاں خاتون میڈیکولیگل افسر نے لاش کا پوسٹ مارٹم کیا۔

کراچی پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم سے حاصل ہونیوالے نتائج کی تفصیلات بتائیں۔ ایم ایل او کا کہنا تھا کہ انہیں مقتول بچی کے جسم پر ہر حصے بالخصوص سر پر بے تحاشہ زخم ملے۔

ان کے مطابق ابتدائی جانچ پڑتال نے اس بات پر سختی سے اکسایا کہ بچی کے ساتھ بدترین زیادتی کی تحقیقات کی جائے۔ پولیس سرجن کا کہنا ہے کہ نتائج کے مطابق موت کی ممکنہ وجہ دم گھٹنا ہے جبکہ ٹوکسیکولویکل اسکریننگ کیلئے بھی نمونے محفوظ کرلئے گئے ہیں۔

قائد آباد پولیس نامعلوم شخص کیخلاف زیادتی اور قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرچکی ہے۔

پولیس ملزم کو کیسے شناخت کرتی ہے؟

خاتون ایم ایل او نے سیمین سیرولوجی، ڈی این اے پروفائلنگ اور کراس میچنگ کیلئے سواب تیار کئے ہیں، یہ نمونے سندھ فارنزک ڈی این اے اینڈ سیرولوجی لیبارٹری، انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولوجیکل سائنسز جامعہ کراچی کو بھیجے گئے۔

قائد آباد میں بچی کو زیادتی اور شدید تشدد کے بعد قتل کرنے کے بعد علاقے میں پُرتشدد احتجاج شروع ہوگیا۔ ورثاء، رشتہ داروں اور علاقہ مکینوں نے نیشنل ہائی وے پر احتجاج کرتے ہوئے ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ پولیس کی جانب سے بچی سے زیادتی اور قتل کے ملزم کی گرفتاری کی یقین دہانی کے بعد مظاہرین نے قومی شاہراہ پر دھرنا ختم کردیا۔

تحقیقات میں شامل کراچی پولیس اہلکار نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ یہ واضح تھا کہ علاقے کے کسی رہائشی نے ہی لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پر یقین کرنے کی ایک وجہ تھی کیونکہ وہ علاقہ جہاں سے لڑکی کو اغواء کیا گیا تھا اور جہاں سے اس کی لاش دو دن کی گمشدگی کے بعد برآمد ہوئی تھی وہ بہت قریب ہیں۔

اہلکار کا کہنا ہے کہ پولیس نے حالات اور زبانی شواہد کی بنیاد پر ممکنہ مشتبہ اشخاص کی فہرست بنائی اور کراس میچنگ کیلئے ان کے ڈی این اے اکٹھے کر لئے۔

ان کے مطابق پولیس نے 100 سے زائد ڈی این اے کے نمونے اکٹھے کئے ہیں اور انہیں کراس میچنگ کیلئے سندھ فارنزک ڈی این اے اور سیرولوجی لیبارٹری بھیج دیا۔

اس عمل کے دوران ملزم کے بھائی اور والد کا ڈی این اے متاثرہ لڑکی کی لاش سے ملنے والے ڈی این اے سے میچ کرگیا، پولیس نے دونوں کو حراست میں لے لیا لیکن دونوں اس بات کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ جہاں سے لڑکی لاپتہ ہوئی تھی وہ وہاں موجود ہی نہیں تھے۔

تاہم انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ جب لڑکی کو اغواء کیا گیا تو شیر رحمان عرف عبدالرحمان عرف کاکا منا وہاں موجود تھا۔ انہوں نے پولیس کو بتایا کہ منا بچی کی لاش ملنے کے چند روز بعد کراچی سے چلا گیا۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ایسٹ انسٹی گیشن 2 عرب مہر نے تصدیق کی ہے کہ قائد آباد میں 7 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کرنیوالے ملزم کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس نے منا کے بارے میں اطلاع دینے والے کو 2 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔

عرب مہر کا مزید کہنا ہے کہ منا کی گرفتاری مانسہرہ کے علاقے جلال آباد سے سندھ اور خیبرپختونخوا پولیس کی مشترکہ کارروائی میں عمل میں آئی۔

تاہم انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پوری تفصیلات کل (جمعرات کو) پریس بریفنگ کے دوران دی جائیں گی۔