جوڈیشل ریمانڈ ختم، فواد چوہدری اسلام آباد پولیس کے حوالے

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پولیس کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار رہنما فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ مسترد کیے جانے کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنا دیا ہے اور پولیس کی درخواست منظور کر لی ہے۔

جوڈیشل میجسٹریٹ اسلام آباد نے گزشتہ روز پولیس کی جانب سے فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں جیل بھجوادیا تھا۔

پولیس نے جوڈیشل ریمانڈ کے فیصلے کے خلاف سیشن جج کے روبرو درخواست دائر کی۔ پولیس نے موقف اختیار کیا کہ فواد چوہدری سے تفتیش کے لیے مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے، اس لئے جوڈیشل مجسٹریٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیا جائے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے فواد چوہدری کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ پولیس کی جسمانی ریمانڈ دینے کی درخواست کو دوبارہ جوڈیشل مجسٹریٹ سننے اور فواد چوہدری کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا جائے۔

بابر اعوان نے عدالت میں کیسے دفاع کیا؟

اس موقع پر فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ایٹمی ریاست کو موم کی گڑیا بنایا ہوا ہے، فواد چوہدری کے چہرے پر پردہ ڈالا گیا، فواد چوہدری کوئی کلبھوشن نہیں ہے، یہاں دہشت گردی کو پکڑنے والی فورس فواد چوہدری کے لیے کھڑی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے کہا کہ مجھے میرے منشی پر فخر ہے، میرے منشی کو سپریم کورٹ میں بھی میرے ساتھ کھڑے ہونے کی اجازت ہے، یہ منشی سے اتنا چڑتے کیوں ہیں ؟ ہمیں تو فخر ہے اپنے منشیوں پر، جس ادارے نے الیکشن کروانا ہیں وہ مدعی بنا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس کے پیچھے جو جو ہیں سب کو گرفتار کر لیں، پھر تو پورے پاکستان کو جیل بنا دیں اور سب کو قیدی قرار دے دیں۔

بابر اعوان نے یہ بھی کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ بولتا ہے، یہاں ایک آیا تھا جو کہتا تھا ڈالر 100 روپے کا کر دوں گا وہ بھی تو بولتا ہے، ایک مخصوص بولنے والوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، ججز کے بارے میں کیا کیا نہیں کہا گیا وہ اب وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔

اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ پراسیکیوشن کہتی ہے مزید ملزمان کو ڈھونڈنا ہے، پولیس جس کو پکرتی ہے کہتی ہے لاہورمیں بیٹھے شخص کا نام لے لو، پی ٹی آئی رہنما شیرکے بچے ہیں لاہور میں بیٹھنے والے کا نام نہیں لیتے، سارے ثبوت اور لیب لاہور میں ہیں، جب لاہورہائی کورٹ ملزم کا پوچھ رہی تھی تو اسلام آباد لے آئے، پراسیکیوشن نہیں بتا رہی یہ فواد چوہدری سے چاہتے کیا ہیں، فواد چوہدری نے آگ لگانے کا نہیں کہا۔

بابر اعوان نے بات جاری رکھی اور مزید کہا کہ الیکشن کمیشن میرے خلاف مقدمے میں مدعی ہے، الیکشن کمیشن سےانتخابات میں انصاف کیسے مانگوں؟، فواد چوہدری دہشت گرد نہیں ہیں، کوئی ایک پرچہ بغاوت کا عدالت کے سامنے پراسیکیوشن لے آئے۔

دلائل کے دوران فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ فواد چوہدری کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے۔

جویڈیشل ریمانڈ

بعد ازاں عدالت نے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فواد چوہدری کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کی جانب سے فواد چوہدری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ دیا گیا۔ جج وقاص احمد نے ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔

واضح رہے سابق وفاقی وزیر و پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

فواد چوہدری کے خلاف الیکشن کمیشن کے ممبران کو دھمکانے پر مقدمہ درج ہے۔ فواد چوہدری پر سیکریٹری الیکشن کمیشن کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

راہداری ریمانڈ

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو راہداری ریمانڈ پر لاہور سے اسلام آباد 25 جنوری کو منتقل کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر درج

فواد چوہدری کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں 24 جنوری بروز منگل کو مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔

درج مقدمے کے مطابق ( ECP ) چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے خلاف بیان دینے پر فواد چوہدری کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ فواد چوہدری کے خلاف مقدمہ سیکریٹری الیکشن کمیشن کی درخواست پر درج کیا گیا ہے۔

درج مقدمے میں کار سرکار اور دھمکی دینے کی دفعات شامل ہیں۔ درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک منشی کی سی ہوگئی ہے، حکومت میں شامل لوگوں کو ان کے گھر تک چھوڑ آئیں گے۔ الیکشن کمیشن، ان کے ممبران اور خاندانوں کو تنبیہ کرتے ہیں۔