تحریر۔ پروفیسر ملازم حسین بخاری
پرنسپل آزاد جموں وکشمیر میڈیکل کالج مظفرآباد
آزاد جموں کشمیر میڈیکل کالج کی ٹیم کی کاوشوں کیوجہ سے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیر نو کا کام پہلے مرحلہ میں تکمیل کو پہنچ رہا ہے اور دوسرے مرحلے میں داخل ہوا چاہتا ہے جس میں تقریباً پچیس کے قریب مضبوط بنیادوں پر گھر مکمل کئے جا رہے ہیں ایک گھر کی لاگت تقریباً ساڑھے تین لاکھ ہے ہر گھر ایک بڑے کمرے، کچن اور واش روم پر مشتمل ہے، مضبوط اینٹوں، سمنٹ، کنکریٹ اور لوہے سے تعمیر کردہ گھر اگلے سیلاب کو مدنظر رکھ کر بنائے جا رہے ہیں۔ جہاں ہماری ٹیم نے کام کیا وہاں پر ہماری مددگار تنظیموں اور مقامی لوگوں نے بھی اس کام کو آگے بڑھانے میں ہماری مدد کی۔
ضلع دادو کی خیر پور ناتھن شاہ اور مہڑ کی مقامی کمیٹی پرمشتمل ڈاکٹر شیخ محمد خاں، ڈاکٹر معشوق دستی ، عالم شیخ اور سید ریاض حسین نقوی؛ خیر پور ناتھن شاہ کے گاوں بہادر خان جو موجودہ سیلاب میں تباہ ہو گیا تھا اس کو دوبارہ تعمیر کرنے میں آزاد جموں کشمیر میڈیکل کالج کے کام کی نگرانی کر رہی ہے۔ اس گاوں میں کشمیر ہاوسز کے نام سے نئے گھروں کی چابیاں فروری کے وسط تک سب کو دے دی جائیں گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کے 75 سال گزرنے کے باوجود یہ ملک جہاں دنیا کی ہر نعمت موجود ہے وہ آج زوال کا کیوں شکار ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی تو ایک طرف ملک میں پیدا ہونیوالی اجناس ناپائید ہو چکی ہیں، آج بینک کرپٹ ہو رہے ہیں، یہ نتائج نااہل حکمرانوں اور بد عنوان سیاستدانوں کیوجہ سے ہوئے ہیں۔
اگر ہم غور کریں پوری دنیا میں تقریباً 195 کے لگ بھگ ممالک ہیں اور ان میں آبادی کے لحاظ سے چین پہلے نمبر پر اور رقبہ کے لحاظ سے روس پہلے نمبر پر ہے ۔
پاکستان روس سے رقبہ کے لحاظ سے گیارہ گناچھوٹا ہے مگر آبادی کے لحاظ سے بڑا ہے پاکستان کو اللہ نے ہر قسم کی نعمت سے نواز رکھا ہے، پھلوں، اناج، اور سبزیات، کے لحاظ سے مجموعی طور پر پوری دنیا میں ساتویں یا اٹھویں نمبر پر آتاہے، پاکستان کا نہری نظام روس سے بھی بڑا ہے اور گندم اور چاول کی پیداوار میں دنیا میں اپنا مقام رکھتا ہے، براعظم امریکہ سے زیادہ ہے اور جنوبی امریکہ کے برابر ہے ۔
یہ ملک مجموعی زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پچیسویں نمبر پر ہے اور صنعتی اعتبار سے پچپن نمبر پر ہے، کوئلے اور تانبے کے لحاظ سے پوری دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے اور اس کی معیشت دنیا میں 23 ویں نمبر پر ہے۔ سیلاب کے نتیجہ میں جنم لینے والی صورت حال بہت گمبھیرہے۔
یہ ملک سبزیات میں مٹر پیدا کرنیوالا دوسرا بڑا ملک ہے اور پیاز، ٹماٹر اور سبزیات کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر، پاکستان زرعی پیداوار میں ، کپاس، گنے اور چاول اور گندم کی پیداوار میں بالترتیب چوتھے، چھٹے اور ساتویں نمبر پر ہے، پھلوں میں خوبانی، مالٹے کنو، آم اورکھجور کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے یا ساتویں نمبر پر ہے۔
اقوام متحدہ نے جو نئی رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق ابھی تک صرف پندرہ سے بیس فیصد متاثرین تک امداد پہنچ سکی ہے یعنی باقی اسی فیصد متاثرین بے یارومددگار ہیں۔
دوسری طرف نیشنل میڈیا میں متاثرین کی کوئی خبر نہیں ہے۔ بیماری اور بھوک سے درجنوں اموات ہو رہی ہیں مگر سکرینوں پر صرف سیاست چل رہی ہے‘ ساری سیاست کرسی کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ وزارتِ منصوبہ بندی و ترقی‘ ایشیائی ترقیاتی بینک‘ یورپی یونین‘ عالمی بینک اور اقوام متحدہ نے مل کر جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 14.9 ارب ڈالر ہے جبکہ بحالی اور تعمیرِ نو پر 16.3 ارب ڈالر سے زائد کی خطیر رقم درکار ہو گی۔ ان کی اطلاعات کے مطابق سندھ کے 32 اضلاع میں ساڑھے تین لاکھ لوگوں کو ملیریا اور سات لاکھ کو ڈائریا کی تشخیص ہوئی ہے۔ بنیادی صحت کا نظام متاثر ہونے کی وجہ سے متاثرین کو دوائیاں تو درکنار پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے‘ صحت و صفائی کی ابتر ہوتی ہوئی صورت حال میں سات لاکھ ستر ہزار لوگ جلدی امراض کا شکار ہو چکے ہیں ۔نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق 16لاکھ بچے عدم غذائیت کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی یو این ایف پی اے کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں 16لاکھ خواتین زچگی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ صحت عامہ کے مسائل اور بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے زچہ و بچہ کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں۔متاثرین کے پاس نہ رہنے کو چھت ہے نہ کھانے کو کچھ ہے۔ شروع کے چند ہفتوں میں امداد کا کچھ حصہ لوگوں تک پہنچا لیکن اب لگتا ہے انہیں بھلا دیا گیا ہے۔متاثرہ علاقوں میں جتنی خوراک کی ضرورت ہے,ورلڈ فوڈ پروگرام کے پاس اتنے وسائل اکٹھے نہیں ہو رہے۔
بحالی کیسے ممکن ہے
تعمیر نو کے لیے تمام سیاستدانوں کو مل کر بحالی کے لیے کام کرنا چاہیے اس ملک میں جہاں ڈالر نایاب ہو چکا ہے: بیرونی ممالک میں رہنے والے پاکستانی اپنے ملک کی مدد فرمائیں اور حکومت ڈالر کی سمگلنگ کو روکے ،چاول، گندم، پیاز کی سمگلنگ کو روکے اور سیلاب زدہ علاقوں میں گندم کی پیداوار بڑھانے کے لیے ہر گھر کو بلا سود رقبہ کے لحاظ سے پچاس ہزار فی ایکڑ قرضے دے، ان کی بحالی کے لیے مویشی پالنے کے لیے ایک لاکھ فی کس رقم مہیا کی جائے تاکہ گوشت اور دودھ کی پیداوار کو بڑھایا جاۓ۔
حکومت ان کو گھر بنانے کے لیے تین لاکھ تک امداد فراہم کرے اور ان کے تعلیم یافتہ میٹرک یا ایف ایس پاس افراد کو کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کورسز کروائے تاکہ اجتماعی خوشحالی کے لیے انفرادی غربت کا خاتمہ کیا جا سکے اور سیلاب کو روکنے کے لیے بارش کے پانی کو سمندر میں لے جانے والے بہاؤ کو بحال کیا جائے۔
پاکستان کے وہ لوگ جو صاحب حیثیت ہیں انہیں آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ حکومت کے پاس اس وقت اتنے وسائل نہیں ہیں جو بحالی کے لیے تکمیل کی حد تک ہوں، آج ہمارا امتحان ہے ۔
آزاد جموں کشمیر میڈیکل کی طرز پر ان علاقوں میں میڈیکل کیمپ اور بحالی کے کام شروع کئے جائیں:اورسندھ کے پسماندہ علاقے میں کشمیر ہاوسز کی طرز پر گھر تعمیر کیے جائیں جو ناممکن نہیں ہے۔