پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تاہم عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ کی سماعت کررہا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی ہے۔
23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم جاری
نجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم بھی جاری کردیا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔
23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ بینچ کی ازسرنو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے، چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پرطےکیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ازسرنو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ لکھا ہےکہ دو سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہےکہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا نوٹ
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں اہم سوال اٹھائے ہیں، ان کا کہنا ہےکہ میں نے چیف جسٹس پاکستان کا آرڈر پڑھ لیا ہے، میں نے جب عدالت میں آئینی نکات اٹھائے تو چیف جسٹس نے انہیں شامل کرنے پر اتفاق کیا، میرے سوالات پر بینچ کےکسی رکن نے اعتراض نہیں کیا، کھلی عدالت میں میرے سوالات کو شامل کرکے حکم نامہ لکھوایا گیا، چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، جہاں آئین کی تشریح اس عدالت کا اختیار ہے وہاں آئین کا تحفظ بھی اسی عدالت کا کام ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ اسمبلیاں توڑنےکی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت دیکھنا ناگزیرہے، صوبائی اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہےکہ چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے جو یہ ہیں، کیا صوبائی اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟ کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مستردکیا جاسکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہےکہ آئین ایک ایسی دستاویز ہے جسے آنے والے ہر وقت میں چلنا ہے، اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، یہ ناگزیر ہے کہ آئینی خلاف ورزیوں اور آئینی تشریح کے اہم معاملات کو فل کورٹ سنے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہو گئی ہے۔