فائزہ گیلانی
پاکستان بننے کے بعد ہندوستان نے وہاں بسنے والے کشمیری مسلمانوں کو یہ کہا کہ اگر وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں تو جا سکتے ہیں اور یوں6نومبر 1947کو لوگوں کو ٹرکوں میں ڈال کر پاکستان لانے کا کہہ کر اڑھائی لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا اور اس وقت جو کشمیری اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے وہ پاکستان آکر آباد ہو گئے اور آج تک ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے ۔ 1990میں لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں بسنے والے کشمیری مسلمانوں نے بھارتی مظالم سے تنگ آکر پاکستان ہجرت کی اور یوں وہ بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں تاہم پاکستان میں بسنے والے کشمیری مہاجرین آزاد کشمیر کے جنرل الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور یوں ان کا نمائندہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے منتخب ہو کر آزاد کشمیر اسمبلی میں آتا ہے۔
مہاجرین مقیم پاکستان کے 12 حلقے ہیں۔ان میں سے چھ حلقے جموں کے اور چھ حلقے وادی کے ہیں یہ حلقے سندھ ،
بلوچستان ،پنجاب میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان حلقوں کے 20 لاکھ سے زائد شہریوں کی نمائندگی کے لیے آزاد کشمیر اسمبلی میں 12 نمائندے ہیں ۔جو جنرل الیکشن میں ان شہریوں کے ووٹ کی پرچی سے اسمبلی ممبران منتخب ہوتے ہیں اور ان میں سے سات اس وقت آزاد کشمیر میں مختلف محکموں کے وزیر ہیں تاہم آزاد کشمیر اسمبلی پاکستان اور آزاد کشمیر میں موجود چند بے روزگاروں کے روزگار کا زریعہ ہے۔
حکومت آزاد کشمیر مہاجرین مقیمِ پاکستان کی ترقی اور بنیادی سہولیت کی فراہمی کے لیے صرف ایک ممبر اسمبلی کو سالانہ تقریبا 10سے 12 کروڑ روپے کی رقم فراہم کرتی ہے۔ جو کہ مبینہ طورپرکرپشن کی نذر ہو جاتی ہے جس کی ایک واضح مثال ماضی اورحال ہی میں حلقہ ایل اے 35جموں2 گوجرانوالہ، ڈسکہ، نارووال سےمنتخب ہونے والے سابق و موجودہ ممبر اسمبلی کی کرپشن ہے۔حلقہ ایل اے 35 جموں دو سے تعلق رکھنے والے ایک شہری محمود احمد نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایک ممبراسمبلی نے تو اپنی حویلی حکومت آزاد کشمیر سے مہاجرین کے ترقیاتی کاموں کے لیے ملنے والے فنڈز سے بنائی ہے ۔
محمود کہتے ہیں کہ کشمیری مہاجرین اور ان کے بچوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہمارا کوئی مستقبل نہیں اور نہ ہی بنیادی سہولیت زندگی ہیں نہ پینے کا صاف پانی ہے نہ کوئی تعلیم کا نظام ہے اور نہ ہی روزگار کا کوئی زریعہ۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت آزاد کشمیر نے محض مہاجرین ممبران اسمبلی کو نوازنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا ہر دور میں ہر پارٹی کے ٹکٹ پر جو بھی نمائندہ منتخب ہوئے انہوں نے واپس حلقوں کا رخ نہیں کیا اور نہ ہی حکومت آزاد کشمیر نے کبھی ہمارے مسائل کی جانب توجہ دی۔ اس وقت بھی آزاد کشمیر میں سات وزیر ایسے ہیں جن کا تعلق مہاجرین حلقوں سے ہے۔ محمود کہتے ہیں کہ پاکستان میں کشمیری مہاجرین کے جتنے بھی حلقے ہیں ان میں اگر کوئی ترقیاتی کام ہوا تو وہ حکومت پاکستان نے ہی کروایا کیونکہ حکومت آزاد کشمیر سے ترقیاتی کاموں کے لیے جو فنڈز ملتے ہیں ان میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری مہاجرین آج بھی بنیادی سہولیات زندگی سے محروم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان کے اپنے ہزاروں مسائل ہیں جن میں آبادی کا زائد ہونا ایک اہم مسلہ ہے پاکستان کے مختلف علاقوں کہ شہری خود بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ایسے میں کشمیری مہاجرین کا بوجھ بھی اگر پاکستان کے کندھوں پر ہی ڈالنا ہے تو حکومت آزاد کشمیر مہاجرین کے نام پر چند بے روزگاروں کو کیوں نواز رہی ہے؟ محمود کا کہنا ہے کہ اگر مہاجرین تک حکومت آزاد کشمیر سے جاری ہونے والے فنڈز کے ثمرات نہیں پہنچتے تو حکومت کو چاہیے کہ مہاجرہن کے نام پر چند لوگوں کو نوازنا چھوڑ دے۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں موجود مہاجرین ممبران اسمبلی کے پاس شناختی کارڈ پاکستان کا جبکہ سٹیٹ سبجیکٹ آزاد کشمیر کا ہے جو کہ جعلی ہونے کی وجہ سے کیس آزاد کشمیر کی عدالتوں میں زیر سماعت یے تاہم یہ ایک الگ سوال ہے کہ اگر یہ کشمیر کے شہری ہی نہیں تو ممبر اسمبلی کیسے ہیں ؟
محمود کہتے ہیں کہ کشمیری مہاجرین اور ان کے بچوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہمارا کوئی مستقبل نہیں اور نہ ہی بنیادی سہولیت زندگی ہیں نہ پینے کا صاف پانی ہے نہ کوئی تعلیم کا نظام ہے اور نہ ہی روزگار کا کوئی زریعہ۔
مہاجرین نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہاجر کالونی میں بسنے والے مہاجرین کو پینے کے صاف پانی ، بجلی قبرستان تعلیم جیسی سہولیات فراہم کریں۔
شہری کی جانب سے عائد کیے جانے والے الزامات پر مواقف لینے کے لیے فون پر ممبر اسمبلی مقبول گجر سمیت دیگر ممبران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ محض الزامات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
مقبول گجر کا کہنا ہے کہ وہ دو بار ممبر اسمبلی رہے چکے موجود اسمبلی میں ان کو وزارت بھی ملی تھی مگر ان کے سابق وزیر اعظم تنویر الیاس کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں تھے اور اس سے قبل دوسرے وزیر اعظم کے ساتھ بھی تعلقات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے ان کو کبھی بھی کوئی فنڈز نہیں ملے کہ وہ کوئی کام کروا سکتے۔
آذاد کشمیر کے محکمہ لوکل گورنمٹ کے آفیسر راجہ ذولقرانین کا کہنا ہے کہ حکومت آزاد کشمیر کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار نہیں جس سے ان ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ کی جا سکے ۔حکومت آزاد کشمیر کے پاس محدود فنڈز ہوتے ہیں اور مہاجرین کے حلقے پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں جن کی مونٹرنگ کے لیے وسائل کا ہونا ضروری ہے ۔راجہ ذولقرنین کہتے ہیں کہ ان فنڈز میں ممکنہ طور پر کرپشن ہوتی ہے کیونکہ ممبران اسمبلی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے محکمہ لوکل گورنمنٹ سے فنڈز لے لیتے ہیں مگر وہ کس حد تک خرچ کیے جاتے ہیں اس کا کوئی ریکارڈ فراہم نہیں کیا جاتا۔
آزاد کشمیر کے محکمہ لوکل گورنمنٹ سے آر ٹی کے زریعہ یہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران مہاجرین مقیم پاکستان کے لیے کتنے فنڈز جاری کیے گے ؟
اور ان فنڈز سے کیا کام کروائے گے ؟ جس پر سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے اپنے ماتحت آفیسرز کو تحریری طور پر ہداہت جاری کی کہ یہ معلومات فراہم کی جائیں۔ مگر دو ماہ کا وقت گزارنے کے اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کے دوبارہ احکامات کے باوجود نہ تو کوئی تحریری جواب دیا گیا اور نہ ہی متعدد بار انٹرویو کے لیے وقت مانگنے کے باوجود اور فون کال کے زریعہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کے باوجود کوئی جواب ملا۔
جبکہ سابق وزیر حکومت طاہر کھوکھر کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں بہت کم فنڈذ ملتے تھے۔جو اس وقت پچاس لاکھ کی رقم تھی اس کے باوجود کوئٹہ کراچی اور جھنگ کی مہاجر کالونیوں کے ترقیاتی کاموں کے لیے یہ بجٹ خرچ کیا گیا۔ مہاجر کالونیوں میں گللیاں بنوائی گئیں اور جن لوگوں کی مکانات کا مسلہ تھا ان کو ان مہاجر کالونیوں میں مکانات فراہم کئے گئے۔
پاکستان میں بسنے والے مہاجرین کی تعداد تقریبا بیس لاکھ سے ذائد ہے اور ان کی 27 مہاجر کالونیاں ہیں جو کراچی ،کوئٹہ،پنجاب اور کے پی کے کے مختلف علاقوں میں ہیں ۔
طاہر کھوکھر کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں بجٹ دوگنا ہو چکا ہے جس سے چند مخصوص لوگوں کو نوازا جاتاہے اور اس کے فوائد عام شہری تک نہیں پہنچ پاتے ۔اگرچہ حکومت پاکستان نے اپنے طور پر کچھ سہیولیات فراہم کی ہیں جیسا کہ روڈز ہیں یہ کچھ تعلیمی ادارے ہیں مگر وہ کس نوعیت کی ہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔انہوں نے بتایا کہ مہاجرین کے یہ حلقے زیادہ تر دیہی علاقوں میں ہیں جہاں پینے کے صاف پانی،سیوریج لائن بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔کیونکہ حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے ملنے والے فنڈز میں اگرچہ اضافہ کیا گیا ہے مگر یہ ابھی بھی موجودہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں اور جو ملتے بھی ہیں تو کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ طول و ارض میں پھیلے ہوئے ان حلقوں میں احتساب کا کوئی نظام نہیں ۔طاہر کھوکھر سمجھتے ہیں کہ حکومت آزاد کشمیر کو چاہیے کہ وہ ان فنڈز کی شفاف تقسیم کے لیے یہ تو کوئی پالیسی ترتیب دے یا پھر ان فنڈز کو مہاجرین کے حلقوں میں تعلیم اور صحت پر خرچ کرنے کے علاوہ یتیم نادار اور بیواوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ ان کی زندگی کا پہیہ چل سکے۔