ماہ اکتوبر چھاتی کے کینسر کی آگاہی کا مہنہ کہا جاتا ہے اس ماہ بریسٹ کینسر سے متعلق عوامی شعور اُجاگر کرنے کے لیے ’پنک ربن‘ مہم کا آغاز کیا جاتا ہے- تقریب کے لیے ڈاکٹر مریم زبیر نے پوری تقریب کے لیے سٹیج سیکٹری کے فرائض سرانجام دئے، انہوں نے کہا ہم ناصرف چھاتی کے کینسر پر کام کر رہے ہیں بلکہ عورتوں کے سروائکل کینسر پر بھی کام ہو رہا ہے۔ کالج کی طلبا تنظیم کے علاوہ نرسز اور فیکلٹی کے ممبران نے شرکت کی۔ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی آزاد جموں کشمیر میڈیکل کالج مظفر آباد نے 26 اکتوبر کو عالمی ادارہ صحت کے پاکستان کے کنٹری ہیڈ کے ساتھ مل کر منایا۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) پاکستان کے کنڑی ہیڈ ڈاکٹر پلیتھا ماہی پالا (Dr Palitha Mahipala ) جو آج کے سیمینار کے مہمان خصوصی تھے، نے کہا ہے کہ پاکستان کی پچاس فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، خواتین کو بروقت طبی مشورہ لینے کی ترغیب دینے اور چھاتی کے کینسر سے وابستہ غلط تصورات کو ترک کرنے اور اس مرض سے بچنے کیلئے معاشرے میں بڑے پیمانے پر شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو چھاتی کے کینسر کا خطرہ ہے، اس کے علاوہ ہر 13 منٹ میں ایک خاتون اس مرض کا شکار ہوتی ہے۔انہوں نے کہا پاکستان میں چھاتی کے کینسر کا مارٹیلیٹی ریٹ پوری دنیا سے زیادہ ہے جس کی وجہ تشخیص میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز آزاد کشمیر میڈیکل کالج میں منعقدہ ”چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی، کے سیمینار“ عباس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائینسز سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر پلیتھانے کہا کہ ہر سال چھاتی کے کینسر سے ہونے والی اموات میں کمی کے لیے خواتین صورتحال کی سنگینی کو سمجھیں اور اپنی صحت کی فکر کریں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بریسٹ کینسر کے مریضوں کی شفایابی کی شرح تقریبا 95-98 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 45 فیصد ہے جس کی وجہ دیر سے تشخیص ہے۔ انہوں نے اے جے کے میڈیکل کالج کے طلباء پر زور دیا کہ وہ اپنے اردگرد موجود دیگر خواتین تک آگاہی کا پیغام پھیلائیں۔
انہوں نے اپنے لیکچر میں اس کی وجوہات، اور بچاو پر سیر حاصل گفتگو کی، انہوں نے کچھ وجوہات سے بچاو تو شاید ممکن نہیں جیسے عمر، جنس، قومیت، وراثت لیکن بہت ساری دوسری وجوہات سے بچاو ممکن ہے، انہوں نے کہا کہ تقریباً 10فیصد بریسٹ کینسر جینیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتاہے، ان نقائص کی حامل خواتین میں اس مرض کے 80فیصد امکانات ہوتے ہیں جنکا بچاو ممکن ہے خواتین کا غیرصحت مندانہ طرزِ زندگی اور غیر متوازن خوراک لینا قابل کنٹرول ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پرنسپل پروفیسر مُلازم حسین بخاری کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں چھاتی کے سرطان میں اضافہ کی وجہ آگاہی کی کمی ہے محکمہ صحت کی درخواست پر وفاقی حکومت کی جانب سے مظفرآباد میں کینسر ہسپتال کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے تاکہ آزاد کشمیر کے لوگوں کو بہتر اور سستا علاج میسر ہو محکمہ صحت کی آئیندہ حکمت میں اس حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائے گی تاکہ خواتین کو بھاتی کے سرطان کے حوالے سے بروقت آگہی ہو، ان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میڈیکل کالج کے میڈیکل سٹوڈنٹس چھاتی کے سرطان، کے حوالے سے آگاہی پر کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر سارہ کانٹ اور ڈاکٹر ناہید نے کہا بچاؤ کیسے ممکن ہے؟پر علیحدہ علیحدہ گفتگو کی اور کہا کہ بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص ہی اس مرض کو بڑھنے سے روکنے اور علاج کا ذریعہ بنتا ہے لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب اس مرض کے حوالے سے بنیادی آگاہی حاصل ہوگی۔ لہٰذا، خواتین کا خودتشخیصی عمل (tripe Assesment) کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ انھیں پہلے گھر میں خود اپنا معائنہ کرنا چاہیے اور چھاتی میں کسی بھی قسم کی غیرمعمولی تبدیلی محسوس ہونے پر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر فرزانہ صابر نے کہا کہ علامت ظاہر ہونے سے پہلے اس مرض کو کیسے پکڑا جا سکتا ہے اس پر وہ کام کر رہی ہیں، انہوں نے آزاد کشمیر میں تشخیص کی سہولیات کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے کہا اگر بریسٹ کینسر کا جلد پتہ چل جائے اور مناسب تشخیص اور علاج دستیاب ہوجائے تو اس بات کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ یہ بیماری ٹھیک ہوجائے۔ تاخیر سے پتہ چلنے کی صورت میں اکثر علاج معالجہ آپشن نہیں رہتا، ایسے معاملات میں تکلیف کی شدت کو کم کرنے کیلئے مریض کو دوا دی جاتی ہے۔
آزاد کشمیر عالمی ادارہ صحت سے وابستہ تمام لوگوں نے شرکت کی، ڈاکٹر بشری شمس بھی کنٹرئ ہیڈ کے ساتھ تھیں ڈاکٹر ستار – پروگرام منیجر EPI -DoH، ڈاکٹر بشریٰ شمس – ٹیکنیکل آفیسر پی ایچ سی – ڈبلیو ایچ او, ڈاکٹر واحد بھرت این پی او – ڈبلیو ایچ او, ڈاکٹر فاطمہ جنید ڈویژنل آفیسر WHO MZD, ڈاکٹر رفعت حیات ڈویژنل آفیسرراولاکوٹ, ڈاکٹر نواب خان ڈویژنل آفیسر ڈبلیو ایچ او میرپور بھی تھے
آخر میں ڈاکٹر ایمز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے مہمان گرامی کی آمد کو خوش آئند قرار دیا ایمز کے لیے چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے سہولیات فراہم کرنے پر ڈاکڑ پلیتھا ماہی پالا کے کردار کو سراہا۔ ڈاکٹر سیماب ظفر نے بہت خوبصورت الفاط میں آج کے سیمینار کی کاروائی کو مختصر الفاظ میں سمرائز کیا اور مہمان گرامی کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں ڈاکٹر ماہی پالا کو علاقائی ڈریس پیش کیا گیا اور کالج کی شیلڈ بھی دی گئی. اس سیمینار میں اے جے کے میڈیکل کالج کی طلبا تنظیم اے ایس پی ڈبلیو ایس ASPWS نے بھر پور تعاون کیا۔پروفیسر ممتاز احمد نے تمام مہمانوں کو چائے اور ریفریشمنٹ کروائی، پروفیسر عابد کریم اور پروفیسر محمد عارف نے تمام طلبا و طالبات اور عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کے ساتھ مل کت چھاتی کے کینسر کے خلاف واک کروائی، عادل عباسی نے سمینار کا فُول پروف انتظام کیا۔ ڈاکٹر ماہی پالا پلیتھا نے کالج کے طلبا و طالبات کے لیے ایک ایمبولینس کے عطیہ کا اعلان کیا