روشن مستقبل کی خاطر ٹینٹ کے نیچے پڑھنے والے باہمت بچے

2022 کے حالیہ سیلاب نے خیبرپختونخوا میں بہت سی آفات اور لوگوں کو بے گھر کیا ہے۔ اگر ایک طرف سے دیکھا جائے تو لوگوں کی فصلیں، مکانات حتیٰ کہ ہوٹل بھی تباہ ہوئے ہیں لیکن اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو اس نے تعلیمی نظام کو بری طرح تہہ و بالا کر دیا ہے۔

لوگ ہجرت کرلینگے، فصلیں بھی دوبارہ اُگ جائیگی ، لیکن تعلیم ایسی چیز ہے جو نسلوں کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہے اور اگر اس میں کوئی رکاوٹ آئی تو بہت بڑا خطرہ ہو گا۔
یہ کہانی ہے اپر دیر کوہستان میں آباد ایک اسکول، گورنمنٹ ہائی سکول بریکوٹ کوہستان ڈسٹرکٹ دیر اپر کی جہاں پر بچے سیلاب کی تباہی کی وجہ سے ٹینٹوں کے نیچے پڑھائی کرنے پر مجبور ہے لیکن بدقسمتی سے یہ بچے 2022 نہیں بلکہ 2010 کے سیلاب سے اسی مسئلے کے شکار ہے۔
2010سے پہلے یہ بچے ہنسی خوشی اپنی تعلیم کے حصول کیلئے مڈل اور پرائمری سکول جاتے تھے لیکن ہوا کچھ یوں کہ 2010 کے سیلاب سے پرائمری سکول مکمل طور پر پانی میں بہہ گیا جس کی وجہ سے وہ بچے مجبورا مڈل سکول میں آکر پڑھائی کرنے پر مجبور ہوگئے اور اساتذہ نے بھی مجبورا انہی بچوں کو مڈل سکول کے بچوں کے ساتھ ایڈجسٹ کر لیا

دو ہزار دس کے سیلاب کے بعد اس پرائمری سکول کی مرمت کے بارے میں نہ سرکار اور نہ کسی دوسرے ادارے نے پوچھ گچھ کی اور یوں یہ بچے اسی طریقے سے وہاں پر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوگئے ۔
کہانی صرف یہیں تک نہیں ہے کیونکہ ابھی 2022 کی سیلاب نے بھی آنا تھا۔ یہ بچے جنہوں نے کچھ جوڑ توڑ کر کے اپنی تعلیم جاری رکھی تھی، 2022 کے سیلاب کے بعد وہ نظام بھی درہم برہم ہوگیا
ہوا کچھ یوں کہ 2022 کے سیلاب کے بعد مڈل سکول بھی مکمل طور پر پانی میں بہہ گیا اور یہ بچے اب مکمل طور پر تعلیم کے حصول سے محروم ہونے والے تھیں لیکن خوش قسمتی سے یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے ہمت نہیں ہاری اور سکول نا ہونے کی وجہ سے ٹینٹ کے نیچے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔
سید باچا جو کہ اس سکول میں بطور سینئر سرٹیفائیڈ سی ٹی ٹیچر کام کر رہا ہیں کا کہنا ہیں کہ شکر ہیں کہ یو این ایچ سی آر والو نے ہمیں سائز میں بڑے ٹینٹس مہیاں کر لئے ہیں تو ہم اس میں تعلیم دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمارے پرائمری کے کچھ طالب علم مقامی مسجد میں شفٹ ہوگئے ہیں اور کچھ طالب علم ٹینٹوں کے نیچے پڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ وہ ماحول تو نہیں ہیں جو کہ ایک اچھی کوالٹی کے تعلیم کیلئے ہوتی ہیں لیکن اساتذہ اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ کورسز کو کور کرسکے لیکن پھر بھی ماحول ایک بڑا عنصر ہیں۔

مقامی ایم این اے صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہاں ہیں کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور پی ایم ڈی والوں نے بھی ایک دورہ کیا تھا لیکن فی الحال کہاں جا رہا ہیں کہ موجودہ وقت میں پاکستان کی معاشی حالات اسطرح نہیں ہے کہ ان سکولوں کو دوبارہ آباد کیا جائے۔ انہوں نے کہاں
یہ کوہستان ، اپر دیر کے وہ بچے ہیں جو اپنے مستقبل سے نا خبر تو ہیں لیکن اس کے لئے ہر حال میں اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں اور بد قسمتی سے یہ بچے اچھے معیار کے تعلیم اور ماحول سے محروم ہیں۔ اگر اسی طرح جاری رہا تا خدا نخواستہ ان بچوں کے یہ خواب دھرے کے دھرے رہ جائینگے اور یوں آنے والی نسل اپنی اچھی مستقبل کھو دینگے

تحریر:عاصم خان

Comments (0)
Add Comment