کشمیر فلسفہ، علم و ادب کی سر زمین

مورخہ 21 ستمبر 2023 کو آزاد جموں کشمیر میڈیکل کالج کے خوبصورت لان میں ایک علم و ادب کی خوبصورت شام منائی گئی جس میں طلبا و طالبات نے بیت بازی کا مقابلہ منعقد کیا: بیت بازی، اردو شاعری کا ایک دلچسپ کھیل ہے، اس کھیل میں دیگر شعرا کے اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔ اس کھیل کے لئے باقاعدہ ٹیمز تشکیل پاتی ہے اور ایک ٹیم جس شعر پر اختتام کرتی ہے دوسری ٹیم کو پہلی ٹیم کے شعر کے آخری لفظ سے شعر پڑھنا ہوتا ہے۔
یہاں کی طلبا کی تنظیم SYNCH کے زیر اہتمام فوڈ فیسٹول کا اہتمام کیا گیا تھا جس کے روح رواں پہلے سال کے طلبا و طالبات تھے.
آفاق احمد(صدر)؛ اقصی حیدر نائب صدر)، حسن اقبال، ثنا عمر کیانی، آمنہ اسلم، ثمر فاروق، علی اور عثمان منتظمین تھے۔ اس فوڈ فیسٹیول میں خوش ذائقہ کھانوں کی نمائش کی گئی۔ اس کے علاوہ پئُٹنگ، کیلیگرافی اور فوٹوگرافی ۔ کے مقابلوں کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔
گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج کے اور اے جے کے ایم سی کے طلبا و طالبات میں بیت بازی کا مقابلہ ہوا جس میں سیدہ رافعہ اور جعفر نے ماڈل سائنس کالج سے حصہ لیا:
جبکہ فردوس اور ایمان کیانی نے اے جے کے ایم سی کی ٹیم کی نمائندگی کی،
ڈاکٹر ابراہیم کوثر نے جج کے فرائض انجام دئیے: آخر میں پروفیسر مُلازم حسین بخارئ پرنسپل، پروفیسر زاہد عظیم، پرفیسر عدنان معراج، فیصل عباسی اور رابعہ خان نے بچوں میں انعامات تقسیم کئے:
کشمیر کی سر زمین کی تہذیب، اس کی ثقافت ، اس کی صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ پر مشتعمل ہے اس سر زمین کی ثقافت کو متعارف کروانے کے لیے آزاد جموں کشمیر میڈیکل کالج سال بھر میں ادبی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد کرواتا رہتا ہے:

“ جس رُخ سےبھی دیکھوگےنظروں کو پکڑ لے گا
تہذیب کا دھارا ہے کشمیر ہمارا ہے
‏‎ایماں کی حرارت کا جذبوں کی نفاست کا”
خوش بخت اشارہ ہے کشمیر ہمارا ہے”

کشمیر میں اردو ادب:
کشمیر چونکہ قدرتی حُسن کا دوسرا نام ہے اور شاعری حسن کی تحسین اور جذبوں کی تہذیب کا نام ہے اس لیے یہ سر زمین ادیبوں کو تخلیق کرتی رہی ہے اور دیگر شعرا و سخنوروں کو بھی طبع آزمائی کرنے پر مجبور کرتی رہی ہے کیونکہ کشمیر کے منا ظر،اور اس کے حسن فراواں کا عالم تو یہ ہے کہ جس نے دیکھا بھی نہیں بن دیکھے شیدائی بن جاتاہے۔
جو کشمیر ی نہیں وہ بھی ہے وہ بھی کشمیر کی محبت اور جذباتی تعلق کے با عث خود کو کشمیری کہلوانا پسند کرتا ہے۔
“جیسے شہنشاہ ظہیرالدین بابرنے کہا تھا کہ کشمیر زمین پر جنت بینظیر ہے۔”
“وادیء گیسودرا زاں تیرا زنجیری ہوں میں
گرچہ کشمیری نہیں ہوں پھر بھی کشمیری ہوں میں”
یہ سر زمین علماء اور صوفیاء کا بھی مسکن رہی ہے اس لیے جموں کشمیر میں بھی سماج پر مذہب کی چھاپ ہے۔ موجودہ دور کے سید مفتی کفایت حسین نقوی اتحاد بین المسلمین کے بانی سمجھے جاتے ہیں ان کے اباو اجداد کا تعلق اوچ شریف کے سید جلال الدین بخاری سرخ پوش کے خاندان سے ہے اور ان کے اباو اجداد علم کا مرکز جانے جاتے ہیں جو تقریباً 1685 کے قریب مظفر آباد تشریف لائے۔ خاندان گیلانی بھی تصوف سے تعلق رکھتے ہیں، جو کشمیر میں بزرگی کی علامت جانے جاتے ہیں۔
پیر چناسی، پیر سمار، شاہ عنایت، خواجہ سید شاہ حسین، سائیں سہیلی سرکار، سید نیک عالم شاہ، پیرا شاہ غازی و دیگر صوفیا کرام بابا شیخ سید مسعود الدین نروری کشمیر، حافظ احمد یسوی، حافظ محمد علی، خواجہ احمد ثانی، خواجہ سلطان محمد ملوک رومی،، خواجہ عبد الصبور، خواجہ عبد العزیز، خواجہ عبد المجید، خواجہ محمد حیات، خواجہ محمد فاضل،شیخ نور الدین ولی، عتیق الرحمن فیض پوری، قاضی فتح اللہ شطاری، للہ عارفہ، مرزا کامل بدخشی، میاں محمد بخش، نظام الدین کیانوی، کشمیر کی محکم اقدار کے داعی سمجھے جاتے ہیں۔
یہاں کی زندہ روایات، اس دھرتی کے آرٹ ،

کشمیر ہمیشہ لہو لہو رہا ہے مگر رومانویت اور الوہیت کا مرکز ہے:
اس کے زخم،اورنسل در نسل مزاحمت کے نتیجے میں پروان چڑھنے والا کلچر جسے دکھوں اور اداسیوں کا کلچر کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔یہ ساری باتیں مل کر اس خطے کے سارے منظر نامے میں ایک عجیب قسم کی رومانویت اور الوہیت پیدا کردیتی ہے اور یہی بات شاعروں، ادیبوں ، مصوروں، مجسمہ سازوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کشمیر کو اپنا موضوع بنائیں۔
جہاں کشمیر دنیا کی انوکھی اور خوبصورت سرزمین ہے وہاں کشمیر کے پہاڑوں کا حسن، اس کی خوبصورت وادیاں ، اس کے چشموں ، جھیلوں ، ہوائوں ، پانیوں ، اس کے زعفران زاروں کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی گہرائی بھی پوری دنیا سے منفرد ہے۔
غالب؛ میر اور علامہ اقبال کا کشمیر:
غالب، میر اور علامہ اقبال سمیت بہت سارے شعرا اور ادیبوں نے اس سر زمین کا خاص طور پر ذکر کیا ہے اور موضوع کشمیر پر طبع آزمائی کی ہے اور گلشن کشمیر استعارہ بن کر رہ گیا ہے۔
سر زمین کشمیر سے شعراء اور ادیبوں کی دلچسپی اس خطہ کی ساری دنیا میں اپنے منفرد لینڈ سکیپ ، اپنی صدیوں پر پھیلی ہوئی تہذیب و ثقافت، اپنی سنسنی خیز اور ڈرامائی سیاسی تاریخ،کی وجہ سے ہے۔

“میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں”

’علامہ اقبال تحریک آزادی کشمیر کے حقیقی بانی ہیں۔ یہ وہ شخصیت تھیں جنہوں نے سب سے پہلے کشمیر کی آزادی کا پرچم اٹھایا۔ یوں کہوں کہ وہ کشمیر کی آزادی کے پرچم بردار تھے۔ انہیں جتنی فکر کشمیر کی تھی اتنی پاکستان کی نہیں تھی۔
علّامہ محمد اقبال نے کہا ۔
گر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

“توڑ اُس دست جفا کیش کو یارب جس نے
روح آزادی کشمیر کو پامال کیا”
امید ہے ایک دن
میرے وَطَن تیری جنّت میں آئیں گے اِک دن
انشاء اللہ العزیز ۔
سِتَم شَعَار سے تجھ کو چھُڑائیں گے اِک دن
میرے وَطَن تیری جنّت میں آئیں گے اِک دن